Book - حدیث 2931

كِتَابُ الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ بَابٌ فِي الضَّرِيرِ يُوَلَّى صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُخَرَّمِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَخْلَفَ ابْنَ أُمِّ مَكْتُومٍ عَلَى الْمَدِينَةِ مَرَّتَيْنِ.

ترجمہ Book - حدیث 2931

کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل باب: نابینے کو عامل بنانا جائز ہے حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے حضرت ابن ام مکتومؓ کو دو بار مدینے کا والی بنایا تھا۔
تشریح : اسلام کے سوا باقی معاشرے بہت عرصہ تک نابینائوں اور خصوصی افراد کے ساتھ امتیازی برتائو کرتے رہے۔انکو اہم ذمہ داریوں پر فائز کرنے کا تو تصور تک نہیں تھا۔اسلام نے نہ صرف ان کے حقوق باقی انسانوں کے برابر کئے بلکہ ان کو انتہائی زمہ داریاں دینے کا بھی آغاذ کیا۔ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ کی ایک اہم ترین زمہ داری یعنی ازان دینا تو ہمہ وقت حاصل تھی۔ حالانکہ وہ ازان کے صحیح وقت کے تعین کےلئے دوسروں کی مدد کے محتاج تھے۔ ازان صبح کے وقت لوگ ان کو بتاتے تھے کہ (اصحبت اصبحت )'آپ نے صبح کردی ہے صبح کردی ہے۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں دوبارہ مدینے کا قائم مقام گورنر بھی بنایا۔اس معاملے میں بھی اپنی زمہ داریوں کی ادایئگی کےلئے یقینا انھیں بروقت دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہوگی۔اور دیکھا جائے تو ہر حاکم کو کسی نہ کسی صورت میں دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔کسی کو ایک صورت میں کسی کودوسری صورت میں نابینا آدمی اگر علم وعمل تقویٰ اور دانائی کے اعلیٰ معیار پر پورا ترتا ہو تو اسے حکومتی منصب دے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اور کچھ لوگوں کا یہ کہناکہ ایسا آدمی فیصلے کرنے کا اہل نہیں ہوسکتا۔ کہ وہ افراد کے پہچاننے اور شخصیات کی تعین وغیرہ کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔رسول اللہ کی حکمت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔اگر نابینا صحیح اور بروقت فیصلہ کرنے اور دوسروں سے کام لینے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اسے مناسب زمہ داری دینے میں کوئی قباحت نہیں بلکہ اس قسم کے خصوصی افراد کی حوصلہ افزائی کرنا اور ان سے ان کی اہلیت وصلاحیت کے مطابق کام لینا معاشرے کےلئے بہتر ہی ہے۔مسلمان معاشروں میں ایسے افراد علم کی خدمت میں ہمیشہ ممتاز رہے۔البتہ غیر اسلامی معاشروں کے ساتھ اختلاط کے سبب ایسے افراد کے بارے میں نامناسب رویہ شروع ہوا۔واللہ اعلم۔ اسلام کے سوا باقی معاشرے بہت عرصہ تک نابینائوں اور خصوصی افراد کے ساتھ امتیازی برتائو کرتے رہے۔انکو اہم ذمہ داریوں پر فائز کرنے کا تو تصور تک نہیں تھا۔اسلام نے نہ صرف ان کے حقوق باقی انسانوں کے برابر کئے بلکہ ان کو انتہائی زمہ داریاں دینے کا بھی آغاذ کیا۔ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ کی ایک اہم ترین زمہ داری یعنی ازان دینا تو ہمہ وقت حاصل تھی۔ حالانکہ وہ ازان کے صحیح وقت کے تعین کےلئے دوسروں کی مدد کے محتاج تھے۔ ازان صبح کے وقت لوگ ان کو بتاتے تھے کہ (اصحبت اصبحت )'آپ نے صبح کردی ہے صبح کردی ہے۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں دوبارہ مدینے کا قائم مقام گورنر بھی بنایا۔اس معاملے میں بھی اپنی زمہ داریوں کی ادایئگی کےلئے یقینا انھیں بروقت دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہوگی۔اور دیکھا جائے تو ہر حاکم کو کسی نہ کسی صورت میں دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔کسی کو ایک صورت میں کسی کودوسری صورت میں نابینا آدمی اگر علم وعمل تقویٰ اور دانائی کے اعلیٰ معیار پر پورا ترتا ہو تو اسے حکومتی منصب دے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اور کچھ لوگوں کا یہ کہناکہ ایسا آدمی فیصلے کرنے کا اہل نہیں ہوسکتا۔ کہ وہ افراد کے پہچاننے اور شخصیات کی تعین وغیرہ کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔رسول اللہ کی حکمت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔اگر نابینا صحیح اور بروقت فیصلہ کرنے اور دوسروں سے کام لینے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اسے مناسب زمہ داری دینے میں کوئی قباحت نہیں بلکہ اس قسم کے خصوصی افراد کی حوصلہ افزائی کرنا اور ان سے ان کی اہلیت وصلاحیت کے مطابق کام لینا معاشرے کےلئے بہتر ہی ہے۔مسلمان معاشروں میں ایسے افراد علم کی خدمت میں ہمیشہ ممتاز رہے۔البتہ غیر اسلامی معاشروں کے ساتھ اختلاط کے سبب ایسے افراد کے بارے میں نامناسب رویہ شروع ہوا۔واللہ اعلم۔