Book - حدیث 2929

كِتَابُ الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ بَابُ مَا جَاءَ فِي طَلَبِ الْإِمَارَةِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا يُونُسُ وَمَنْصُورٌ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ لَا تَسْأَلْ الْإِمَارَةَ فَإِنَّكَ إِذَا أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ فِيهَا إِلَى نَفْسِكَ وَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا

ترجمہ Book - حدیث 2929

کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل باب: حکومت طلب کرنے کا مسئلہ سیدنا عبدالرحمٰن بن سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا ” اے عبدالرحمٰن بن سمرہ ! حکومت کا سوال نہ کرنا ، کیونکہ یہ اگر تمہیں مانگنے پر دی گئی تو تم اس سلسلے میں اپنے آپ کے سپرد کر دیے جاؤ گے ، ( یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد نہ ہو گی ) لیکن اگر بغیر مانگنے کے دی گئی تو اس میں تمہاری مدد کی جائے گی ۔ “
تشریح : انسان کاکوئی معاملہ ایسا نہیں۔ جو اللہ عزوجل کی خاص رحمت اور مدد کے بغیر درست ہوسکے جب کہ حکومت تو بہت بڑی اور کٹھن زمہ داری ہے۔اس لئے مانگ کر حکومت لینا اللہ کی رحمت سے محرومی کا سبب بنتا ہے۔2۔حضرت یوسف ؑ کا یہ فرمانا کہ (اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ)(یوسف۔55) مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردیجئے۔ کسی منصب کے طلب کےلئے نہیں بلکہ ایک عمومی پیش کش پر نوعیت کی تعین کے لئے تھا۔کیونکہ یہ بات اس وقت انہوں نے کہی جب عزیز مصر نے ذمہ داری کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ (إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ)(یوسف۔54) آپ آج سے ہمارے ہاں زی مرتبہ اور امانت دار ہیں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب ملک وقوم کے حالات دگرگوں ہوں اور کوئی باصلاحیت فرد نیک نیتی سے یہ سمجھتا ہوکہ وہ اس صورت حال سے عہدہ برآ ہ ہوسکتا ہے۔تو اس کو آگے آنا چاہیے۔ایسا شخص اگر امام عادل کے جیسے وصف سے موصوف ہو تو اس کے متعلق بشارتوں کا بھی اعلان ہے۔ انسان کاکوئی معاملہ ایسا نہیں۔ جو اللہ عزوجل کی خاص رحمت اور مدد کے بغیر درست ہوسکے جب کہ حکومت تو بہت بڑی اور کٹھن زمہ داری ہے۔اس لئے مانگ کر حکومت لینا اللہ کی رحمت سے محرومی کا سبب بنتا ہے۔2۔حضرت یوسف ؑ کا یہ فرمانا کہ (اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ)(یوسف۔55) مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردیجئے۔ کسی منصب کے طلب کےلئے نہیں بلکہ ایک عمومی پیش کش پر نوعیت کی تعین کے لئے تھا۔کیونکہ یہ بات اس وقت انہوں نے کہی جب عزیز مصر نے ذمہ داری کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ (إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ)(یوسف۔54) آپ آج سے ہمارے ہاں زی مرتبہ اور امانت دار ہیں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب ملک وقوم کے حالات دگرگوں ہوں اور کوئی باصلاحیت فرد نیک نیتی سے یہ سمجھتا ہوکہ وہ اس صورت حال سے عہدہ برآ ہ ہوسکتا ہے۔تو اس کو آگے آنا چاہیے۔ایسا شخص اگر امام عادل کے جیسے وصف سے موصوف ہو تو اس کے متعلق بشارتوں کا بھی اعلان ہے۔