Book - حدیث 2928

كِتَابُ الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ بَابُ مَا يَلْزَمُ الْإِمَامَ مِنْ حَقِّ الرَّعِيَّةِ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالْأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ عَلَيْهِمْ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ

ترجمہ Book - حدیث 2928

کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل باب: عوام اور رعیت کے حقوق جو حاکم پر واجب ہیں سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” خبردار ! تم میں سے ہر شخص محافظ اور ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کی رعیت ( جو کوئی اور جو کچھ اس کی ذمہ داری میں ہے ) کے متعلق پوچھا جائے گا ۔ پس امیر ، جو لوگوں کا محافظ ہے ، اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا ۔ مرد اپنے گھر والوں کا محافظ ہے ، اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا ۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر محافظ ہے اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا ، غلام اپنے مالک کے مال کا محافظ ہے ، اس سے اس مال کے متعلق پوچھا جائے گا ۔ الغرض ! تم سب کے سب راعی اور حاکم ہو اور تم سب سے تمہاری رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا ۔ “
تشریح : ہرفرد اپنے دائرہ اختیار میں اپنی حدود تک ان سب کا محافظ وذمہ دار ہے۔لہذا کوئی بھی اپنے دینی ودنیاوی فرائض ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے۔یہی احساس زمہ داری ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کی بنیاد ہے۔2۔بچوں کی تعلیم وتربیت میں ماں باپ دونوں شریک ہوتے ہیں۔مگرماں کی ذمہ داری ایک اعتبار سے زیادہ ہے کہ بچے فطرتا اسی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔اور زیادہ تر اسی کی رعیت اور نگرانی میں رہتے ہیں۔اس لئے شریعت نے اس کو بچوں پر راعی (نگران ) بنایاہے۔ ہرفرد اپنے دائرہ اختیار میں اپنی حدود تک ان سب کا محافظ وذمہ دار ہے۔لہذا کوئی بھی اپنے دینی ودنیاوی فرائض ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے۔یہی احساس زمہ داری ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کی بنیاد ہے۔2۔بچوں کی تعلیم وتربیت میں ماں باپ دونوں شریک ہوتے ہیں۔مگرماں کی ذمہ داری ایک اعتبار سے زیادہ ہے کہ بچے فطرتا اسی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔اور زیادہ تر اسی کی رعیت اور نگرانی میں رہتے ہیں۔اس لئے شریعت نے اس کو بچوں پر راعی (نگران ) بنایاہے۔