Book - حدیث 2921

كِتَابُ الْفَرَائِضِ بَابُ نَسْخِ مِيرَاثِ الْعَقْدِ بِمِيرَاثِ الرَّحِمِ حسن صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ كَانَ الرَّجُلُ يُحَالِفُ الرَّجُلَ لَيْسَ بَيْنَهُمَا نَسَبٌ فَيَرِثُ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ فَنَسَخَ ذَلِكَ الْأَنْفَالُ فَقَالَ تَعَالَى وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ

ترجمہ Book - حدیث 2921

کتاب: وراثت کے احکام و مسائل باب: نسب کی میراث نے مواخات اور خلف کی وراثت کو منسوخ کر دیا ہے سیدنا ابن عباس ؓ نے آیت کریمہ «والذين عاقدت أيمانكم فآتوهم نصيبهم» کی تفسیر میں بیان کیا کہ ایک آدمی دوسرے کا حلیف بن جاتا تھا جبکہ ان میں کوئی نسبی قرابت نہ ہوتی تھی پھر ہر ایک دوسرے کا وارث بھی ہوتا تھا ‘ تو اس حکم کو سورۃ الانفال نے منسوخ کر دیا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا «وأولو الأرحام بعضهم أولى ببعض» ” رشتے ناتے والے ایک دوسرے سے زیادہ نزدیک ہیں ۔ “
تشریح : فائدہ۔ابتدائے ایام ہجرت میں جب مملکت اسلام مدینہ منورہ میں اپنا وجود پکڑ رہی تھی۔تو رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے مابین مواخات (بھائی چارے)کا نظام قائم فرمایاتھا۔یعنی ایک ایک مہاجر کو ایک ایک انصاری کا بھائی بنادیا۔تاریخی اعتبار سے یہ ایک منفرد اورفقید المثال تجربہ تھا۔جو نہ اس سے پہلے کبھی سننے میں آیا اور نہ شائد آئندہ کبھی ہو۔اس مواخات کی بناء پریہ منہ بولے بھائی دوسرے نسبی قرابت داروں کی بجائے ایک دوسرے کے وارث بننے لگے۔سورہ نساء میں اس کا ذکر اس طرح ہے۔( وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ۚ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ)(النساء ۔33) ماں باپ یاقرابت دارجو کچھ چھوڑ جایئں اس سے ہر ایک کے ہم نے وارث مقرر کردیے ہیں اور جن سے تم نے اپنے معاہدہ کیاہے۔پس ان سب کو ان کا حصہ ہاتھوں دو مگر وراثت کا یہ حکم تھوڑے عرصے کے بعدمنسوخ کردیا گیا۔اور سورۃ الانفال میں فرمایا گیا۔( وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ ۗ)(الانفال۔75) اور رشتے ناطے والے اللہ کی کتاب کے اندر ایک دوسرے کے زیادہ نذدیک ہیں۔ اسی طرح حلف کی وراثت کا ایک طریقہ یہ رائج تھا کہ اسلام سے قبل دو اشخاص یادو قبیلوں کے درمیان ایک دوسرے کی مدد کےلئے معاہدہ اور حلف ہوتا تھا۔اور اسلام کے بعد بھی یہ سلسلہ اسی طرح چلا آرہا تھا۔اسی آیت سے یہ طریقہ بھی منسوخ کردیا گیا۔مگر عمومی نصرت واخوت اسلامی اور وصیت کے زریعے سے مدد کرنا باقی ہے۔اور اس سے بھی بڑھ کرجب کوئی رشتہ دار موجود نہ ہو تو حلیف وارث ہوگا۔بعض نے کہا کہ حلیف نہیں بلکہ ایسے آدمی کی وراثت بیت المال میں جائے گی۔قراءت حفص مفص میںجس کے مطابق اس وقت قرآن پڑھا جاتا ہے (عقدت ہے )لیکن بعض روایات میں (عاقدت پڑھا جاتاہے )اس خدیث میں بھی یہ لفظ عاقدت ہے۔ فائدہ۔ابتدائے ایام ہجرت میں جب مملکت اسلام مدینہ منورہ میں اپنا وجود پکڑ رہی تھی۔تو رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے مابین مواخات (بھائی چارے)کا نظام قائم فرمایاتھا۔یعنی ایک ایک مہاجر کو ایک ایک انصاری کا بھائی بنادیا۔تاریخی اعتبار سے یہ ایک منفرد اورفقید المثال تجربہ تھا۔جو نہ اس سے پہلے کبھی سننے میں آیا اور نہ شائد آئندہ کبھی ہو۔اس مواخات کی بناء پریہ منہ بولے بھائی دوسرے نسبی قرابت داروں کی بجائے ایک دوسرے کے وارث بننے لگے۔سورہ نساء میں اس کا ذکر اس طرح ہے۔( وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ۚ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ)(النساء ۔33) ماں باپ یاقرابت دارجو کچھ چھوڑ جایئں اس سے ہر ایک کے ہم نے وارث مقرر کردیے ہیں اور جن سے تم نے اپنے معاہدہ کیاہے۔پس ان سب کو ان کا حصہ ہاتھوں دو مگر وراثت کا یہ حکم تھوڑے عرصے کے بعدمنسوخ کردیا گیا۔اور سورۃ الانفال میں فرمایا گیا۔( وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ ۗ)(الانفال۔75) اور رشتے ناطے والے اللہ کی کتاب کے اندر ایک دوسرے کے زیادہ نذدیک ہیں۔ اسی طرح حلف کی وراثت کا ایک طریقہ یہ رائج تھا کہ اسلام سے قبل دو اشخاص یادو قبیلوں کے درمیان ایک دوسرے کی مدد کےلئے معاہدہ اور حلف ہوتا تھا۔اور اسلام کے بعد بھی یہ سلسلہ اسی طرح چلا آرہا تھا۔اسی آیت سے یہ طریقہ بھی منسوخ کردیا گیا۔مگر عمومی نصرت واخوت اسلامی اور وصیت کے زریعے سے مدد کرنا باقی ہے۔اور اس سے بھی بڑھ کرجب کوئی رشتہ دار موجود نہ ہو تو حلیف وارث ہوگا۔بعض نے کہا کہ حلیف نہیں بلکہ ایسے آدمی کی وراثت بیت المال میں جائے گی۔قراءت حفص مفص میںجس کے مطابق اس وقت قرآن پڑھا جاتا ہے (عقدت ہے )لیکن بعض روایات میں (عاقدت پڑھا جاتاہے )اس خدیث میں بھی یہ لفظ عاقدت ہے۔