Book - حدیث 2901

كِتَابُ الْفَرَائِضِ بَابٌ فِي مِيرَاثِ ذَوِي الْأَرْحَامِ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ عَتِيقٍ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ حُجْرٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ يَحْيَى بْنِ الْمِقْدَامِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَنَا وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ أَفُكُّ عَانِيَهُ وَأَرِثُ مَالَهُ وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ يَفُكُّ عَانِيَهُ وَيَرِثُ مَالَهُ

ترجمہ Book - حدیث 2901

کتاب: وراثت کے احکام و مسائل باب: ذوی الارحام کی وراثت کا بیان صالح بن یحییٰ بن مقدام اپنے والد سے وہ دادا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے ” میں اس کا وارث ہوں جس کا کوئی وارث نہ ہو ، میں اس کا قیدی چھڑاؤں گا اور اس کے مال کا وارث بنوں گا ۔ اور ماموں اس کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو ، وہ اس کا قیدی چھڑائے گا اور اس کے مال کا وارث بنے گا ۔ “
تشریح : ان احادیث میں حکومت اسلامیہ کی اقتصادی پالیسی کا ایک پہلو بیان ہواہے۔کہ وہ اپنی رعیت کو معاشی فلاح وبہبود کی ہر طرح سے ذمہ دار ہوتی ہے۔یہاں تک کہ اگر کوئی مقروض مرجائے تو ہو اس کا قرضہ ادا کرے گی۔بے سہارا چھوٹے بچوں اور بیوائوں کی کفالت کرے گی۔ جبکہ وراثت رشتہ داروں میں تقسیم ہوگی۔2۔ماموں زوی الارحام میں سے ہے۔ دوسرے وارثوں کے نہ ہونے کی صورت میں وہی وارث ہے۔اوراسی طرح اگر بھانجے کے ذمے کوئی مالی حقوق آتے ہوں۔تو وہ ان کی ادایئگی کا بھی پابند ہے۔ اس میں یہ بھی تعلیم ہے کہ بحیثیت مسلمان انسان کو اپنے قریبی بعیدی سبھی رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا معاملہ مظبوط رکھناچاہیے۔جیسے جی یہی لوگ اس کے معاون ومددگار اور اس کے پیچھے اس کی اولاد کے کفیل بنتے ہیں۔2۔اگر کوئی شخص لاوارث ہوتو حکومت اسلامیہ (بیت المال)اس کی وارث ہوگی۔اورایسےشخص پر لازم آنے والے مالی حقوق بھی حکومت ادا کرے گی۔3۔یہ رفاحی اصول مسلمانوں اور مومنوں کے لئے ہیں۔جو بلاجواز حکومت سے صدقات لینے کے روادار نہیں ہوسکتے۔کیونکہ ایمان انسان کے اندر تقویٰ اور طہارت پیدا کرتا ہے۔اس لئے یہ نہ سمجھا جائے کہ ان رعایتوں کی وجہ سے لوگ محنت نہیں کریں گے اورحکومت ہی پر بوجھ بن کر رہ جایئں گے۔ ان احادیث میں حکومت اسلامیہ کی اقتصادی پالیسی کا ایک پہلو بیان ہواہے۔کہ وہ اپنی رعیت کو معاشی فلاح وبہبود کی ہر طرح سے ذمہ دار ہوتی ہے۔یہاں تک کہ اگر کوئی مقروض مرجائے تو ہو اس کا قرضہ ادا کرے گی۔بے سہارا چھوٹے بچوں اور بیوائوں کی کفالت کرے گی۔ جبکہ وراثت رشتہ داروں میں تقسیم ہوگی۔2۔ماموں زوی الارحام میں سے ہے۔ دوسرے وارثوں کے نہ ہونے کی صورت میں وہی وارث ہے۔اوراسی طرح اگر بھانجے کے ذمے کوئی مالی حقوق آتے ہوں۔تو وہ ان کی ادایئگی کا بھی پابند ہے۔ اس میں یہ بھی تعلیم ہے کہ بحیثیت مسلمان انسان کو اپنے قریبی بعیدی سبھی رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا معاملہ مظبوط رکھناچاہیے۔جیسے جی یہی لوگ اس کے معاون ومددگار اور اس کے پیچھے اس کی اولاد کے کفیل بنتے ہیں۔2۔اگر کوئی شخص لاوارث ہوتو حکومت اسلامیہ (بیت المال)اس کی وارث ہوگی۔اورایسےشخص پر لازم آنے والے مالی حقوق بھی حکومت ادا کرے گی۔3۔یہ رفاحی اصول مسلمانوں اور مومنوں کے لئے ہیں۔جو بلاجواز حکومت سے صدقات لینے کے روادار نہیں ہوسکتے۔کیونکہ ایمان انسان کے اندر تقویٰ اور طہارت پیدا کرتا ہے۔اس لئے یہ نہ سمجھا جائے کہ ان رعایتوں کی وجہ سے لوگ محنت نہیں کریں گے اورحکومت ہی پر بوجھ بن کر رہ جایئں گے۔