كِتَابُ الْفَرَائِضِ بَابُ مَا جَاءَ فِي تَعْلِيمِ الْفَرَائِضِ ضغيف حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْروِ بْنِ السَّرْحِ أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ التَّنُوخِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ فَضْلٌ آيَةٌ مُحْكَمَةٌ أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ
کتاب: وراثت کے احکام و مسائل
باب: علم میراث کی اہمیت
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ن فرمایا ” علم تین چیزوں کا نام ہے ، اور جو ان کے علاوہ ہے وہ اضافی ہے ( بنیادی نہیں ) محکم آیات ، ثابت شدہ سنتیں اور مالی حقوق جو عدل پر مبنی ہوں ۔ “
تشریح :
1) یہ روایت سندا ضعیف ہے ۔ تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے (ارواء الغلیل :1664) (2) قرآن مجید کی آیات دو طرح کی ہیں : (1) محکم (2) متشا بہات۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : {هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ } [آل عمران: 7] " اللہ وہ ذات ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس کی کچھ آیات محکم (واضح) ہیں جو کتاب کا اصل ہیں اور کچھ متشابہ ہیں۔۔۔۔ ]محکم [ سے مراد وہ آیات ہیں جن میں اوا مر، نواہی ، احکام و مسائل اور قصص و حکایات کا بیان ہے، ان کا معنی ومفہوم واضح اور اٹل ہے ۔ اور دوسری قسم ]متشا بہ[ سے مراد وہ آیات ہیں جن کا تعلق ما بعدا لطبیعیات سے ہوع ، یعنی اللہ کی ہستی قضا و قدر ، جنت ودوزخ اور ملائکہ وغیرہ کہ انسانی عقل ان کو سمجھے سے قاصر ہو اور ان میں ایسی تاویل کی گنجائش یا کم از کم ایسا ابہام ہو جس سے عوام کو گمراہی میں ڈالنا ممکن ہو ۔ اس لیے اہل بدعت جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے یا اہل باطل ، وہ آیات متشا بہات کے پیچھے پڑے رہتےہیں اور ان کے ذریعے سے "فتنے " برپا کرتےہیں ۔ (ملخص از تفسیر احسن البیان) (3) احادیث و سنن کا ثبوت سند کی صحت و قوت پر ہے ۔ ایسی روایات جن کی سند نا قابل اعتماد ہو کسی طرح رسو ل اللہ ﷺ کا فرمان باور نہیں کی جاسکتیں ۔ (4) مالی معاملات میں شرعی استحقاق کے بغیر کچھ لینا دینا ظلم ہے اور اس سے دنیا میں فساد پھیلتا ہے ، اس لیے مسلمان کو ان امور کی لا زمی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے ۔ اور ان میں سے ایک علم میراث ہے ۔۔
1) یہ روایت سندا ضعیف ہے ۔ تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے (ارواء الغلیل :1664) (2) قرآن مجید کی آیات دو طرح کی ہیں : (1) محکم (2) متشا بہات۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : {هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ } [آل عمران: 7] " اللہ وہ ذات ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس کی کچھ آیات محکم (واضح) ہیں جو کتاب کا اصل ہیں اور کچھ متشابہ ہیں۔۔۔۔ ]محکم [ سے مراد وہ آیات ہیں جن میں اوا مر، نواہی ، احکام و مسائل اور قصص و حکایات کا بیان ہے، ان کا معنی ومفہوم واضح اور اٹل ہے ۔ اور دوسری قسم ]متشا بہ[ سے مراد وہ آیات ہیں جن کا تعلق ما بعدا لطبیعیات سے ہوع ، یعنی اللہ کی ہستی قضا و قدر ، جنت ودوزخ اور ملائکہ وغیرہ کہ انسانی عقل ان کو سمجھے سے قاصر ہو اور ان میں ایسی تاویل کی گنجائش یا کم از کم ایسا ابہام ہو جس سے عوام کو گمراہی میں ڈالنا ممکن ہو ۔ اس لیے اہل بدعت جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے یا اہل باطل ، وہ آیات متشا بہات کے پیچھے پڑے رہتےہیں اور ان کے ذریعے سے "فتنے " برپا کرتےہیں ۔ (ملخص از تفسیر احسن البیان) (3) احادیث و سنن کا ثبوت سند کی صحت و قوت پر ہے ۔ ایسی روایات جن کی سند نا قابل اعتماد ہو کسی طرح رسو ل اللہ ﷺ کا فرمان باور نہیں کی جاسکتیں ۔ (4) مالی معاملات میں شرعی استحقاق کے بغیر کچھ لینا دینا ظلم ہے اور اس سے دنیا میں فساد پھیلتا ہے ، اس لیے مسلمان کو ان امور کی لا زمی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے ۔ اور ان میں سے ایک علم میراث ہے ۔۔