Book - حدیث 2884

كِتَابُ الْوَصَايَا بَابُ مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَمُوتُ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ وَلَهُ وَفَاءٌ يُسْتَنْظَرُ غُرَمَاؤُهُ وَيُرْفَقُ بِالْوَارِثِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ أَنَّ شُعَيْبَ بْنَ إِسْحَقَ حَدَّثَهُمْ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ تُوُفِّيَ وَتَرَكَ عَلَيْهِ ثَلَاثِينَ وَسْقًا لِرَجُلٍ مِنْ يَهُودَ فَاسْتَنْظَرَهُ جَابِرٌ فَأَبَى فَكَلَّمَ جَابِرٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَشْفَعَ لَهُ إِلَيْهِ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَلَّمَ الْيَهُودِيَّ لِيَأْخُذَ ثَمَرَ نَخْلِهِ بِالَّذِي لَهُ عَلَيْهِ فَأَبَى عَلَيْهِ وَكَلَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُنْظِرَهُ فَأَبَى وَسَاقَ الْحَدِيثَ

ترجمہ Book - حدیث 2884

کتاب: وصیت کے احکام و مسائل باب: کوئی شخص مقروض فوت ہوا اور مال چھوڑ گیا تو وارث قرض خواہوں سے مہلت مانگے اور نرمی چاہے سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ اس کے والد ( سیدنا عبداللہ ؓ ) فوت ہو گئے اور ان کے ذمے ایک یہودی کا تیس وسق قرض تھا ۔ سیدنا جابر ؓ نے اس سے مہلت طلب کی مگر اس نے انکار کر دیا ۔ سیدنا جابر ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تاکہ یہودی کے ہاں اس کی سفارش فر دیں ، پس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور یہودی سے بات کی کہ اس قرض کے بدلے کھجور کا پھل لے لو مگر وہ نہ مانا ، رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا کہ مہلت دے دو تو بھی اس نے انکار کیا اور حدیث بیان کی ۔
تشریح : 1۔میت کا قرضہ اولین فرصت میں ادا کرناچاہیے۔مگر حسب احوال مہلت لینے میں کوئی حرج نہیں۔اور مسلمان کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ حتی الامکان نرمی کامعاملہ کرے۔ اور اس قسم کے معاملات میں سفارش کرنا بھی مستحب ہے۔2۔صحیح بخاری میں اس حدیث کا مضمون کچھ اس طرح ہے۔ حضرت جابر بن عبد للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔کہ میرے والد احد میں شہید ہوگئے۔اور چھ بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بہت سا قرض بھی چھوڑ گئے۔جب کھجوریں کاٹنے کاموسم آیا۔تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں۔ آپ تشریف لائیں تاکہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں۔(اور مطالبے میں سختی نہ کریں)آپ نے فرمایا جاو اور اپنا تمام پھل ایک جانب ڈھیر کروو۔چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور پھر آپ کو بلالایا جب ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا تو مجھے غضبناک تیز نظروں سے دیکھنے لگے جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تیور دیکھے تو آپ نے سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین چکر لگائےاور پھر اس پربیٹھ گئے اور فرمایا اپنے قرض خواہوں کی بلائو چنانچہ میں ان کےلئے کھجوریں بھرتا اور ناپتا رہا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی امانت (قرض) ادا کردی۔اور اللہ کی قسم میں اس بات پرراضی تھا۔کہ اللہ میرے باپ کی امانت (قرض ) پوری کرادے۔ خواہ میں اپنی بہنوں کےلئے ایک دانہ بھی نہ لے جائوں۔چنانچہ اللہ کی قسم وہ سب ڈھیر اسی طرح محفوظ رہے۔اور گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ڈھیر جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ ا س میں سے ایک دانہ بھی کم نہ ہوا تھا۔(صحیح البخاری۔الوصایا حدیث 2781)اس حدیث میں بیان ہے کہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین حقوق العباد کے معاملے میں انتہائی حساس تھے۔ اور پھر اللہ عزوجل بھی اپنے بندوں کی عزتوں کو کس پراسرارانداز میں محفوظ فرماتا ہے۔ اور ان کےرزق میں واضح برکت ڈال دیتا ہے۔ بشرط یہ کہ ایمان وعمل میں اخلاص ہو اور ایک اللہ ہی پر توکل ہو۔جعلنا اللہ منھم۔آمین۔2۔ وسق کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔ کہ ایک وسق ساٹھ صاع کا اور ایک صاع تقریبا ڈھائی کلو کا ہوتا ہے۔اس حساب سے ایک وسق تقریباً 3 من اور 30 کلو ہو اور 30 وسق کا وزن تقریبا ً 112 من اور 20 کلو ہوا۔واللہ اعلم 1۔میت کا قرضہ اولین فرصت میں ادا کرناچاہیے۔مگر حسب احوال مہلت لینے میں کوئی حرج نہیں۔اور مسلمان کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ حتی الامکان نرمی کامعاملہ کرے۔ اور اس قسم کے معاملات میں سفارش کرنا بھی مستحب ہے۔2۔صحیح بخاری میں اس حدیث کا مضمون کچھ اس طرح ہے۔ حضرت جابر بن عبد للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔کہ میرے والد احد میں شہید ہوگئے۔اور چھ بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بہت سا قرض بھی چھوڑ گئے۔جب کھجوریں کاٹنے کاموسم آیا۔تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں۔ آپ تشریف لائیں تاکہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں۔(اور مطالبے میں سختی نہ کریں)آپ نے فرمایا جاو اور اپنا تمام پھل ایک جانب ڈھیر کروو۔چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور پھر آپ کو بلالایا جب ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا تو مجھے غضبناک تیز نظروں سے دیکھنے لگے جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تیور دیکھے تو آپ نے سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین چکر لگائےاور پھر اس پربیٹھ گئے اور فرمایا اپنے قرض خواہوں کی بلائو چنانچہ میں ان کےلئے کھجوریں بھرتا اور ناپتا رہا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی امانت (قرض) ادا کردی۔اور اللہ کی قسم میں اس بات پرراضی تھا۔کہ اللہ میرے باپ کی امانت (قرض ) پوری کرادے۔ خواہ میں اپنی بہنوں کےلئے ایک دانہ بھی نہ لے جائوں۔چنانچہ اللہ کی قسم وہ سب ڈھیر اسی طرح محفوظ رہے۔اور گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ڈھیر جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ ا س میں سے ایک دانہ بھی کم نہ ہوا تھا۔(صحیح البخاری۔الوصایا حدیث 2781)اس حدیث میں بیان ہے کہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین حقوق العباد کے معاملے میں انتہائی حساس تھے۔ اور پھر اللہ عزوجل بھی اپنے بندوں کی عزتوں کو کس پراسرارانداز میں محفوظ فرماتا ہے۔ اور ان کےرزق میں واضح برکت ڈال دیتا ہے۔ بشرط یہ کہ ایمان وعمل میں اخلاص ہو اور ایک اللہ ہی پر توکل ہو۔جعلنا اللہ منھم۔آمین۔2۔ وسق کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔ کہ ایک وسق ساٹھ صاع کا اور ایک صاع تقریبا ڈھائی کلو کا ہوتا ہے۔اس حساب سے ایک وسق تقریباً 3 من اور 30 کلو ہو اور 30 وسق کا وزن تقریبا ً 112 من اور 20 کلو ہوا۔واللہ اعلم