Book - حدیث 287

كِتَابُ الطَّهَارَةِ بَابُ مَنْ قَالَ إِذَا أَقْبَلَتْ الْحَيْضَةُ تَدَعُ الصَّلَاةَ حسن لم يجعله من قول النبي صلى الله عليه وسلم جعله كلام حمنة حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَغَيْرُهُ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو: حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ ابْنِ عَقِيلٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمِّهِ عِمْرَانَ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّهِ حَمْنَةَ بِنْتِ جَحْشٍ، قَالَتْ: كُنْتُ أُسْتَحَاضُ حَيْضَةً كَثِيرَةً شَدِيدَةً، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْتَفْتِيهِ وَأُخْبِرُهُ، فَوَجَدْتُهُ فِي بَيْتِ أُخْتِي زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي امْرَأَةٌ أُسْتَحَاضُ حَيْضَةً كَثِيرَةً شَدِيدَةً، فَمَا تَرَى فِيهَا، قَدْ مَنَعَتْنِي الصَّلَاةَ وَالصَّوْمَ؟ فَقَالَ: >أَنْعَتُ لَكِ الْكُرْسُفَ, فَإِنَّهُ يُذْهِبُ الدَّمَ<، قَالَتْ: هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ؟ قَالَ: >فَاتَّخِذِي ثَوْبًا<، فَقَالَتْ: هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ، إِنَّمَا أَثُجُّ ثَجًّا؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >سَآمُرُكِ بِأَمْرَيْنِ, أَيَّهُمَا فَعَلْتِ أَجْزَأَ عَنْكِ مِنَ الْآخَرِ، وَإِنْ قَوِيتِ عَلَيْهِمَا فَأَنْتِ أَعْلَمُ<، فَقَالَ لَهَا: >إِنَّمَا هَذِهِ رَكْضَةٌ مِنْ رَكَضَاتِ الشَّيْطَانِ، فَتَحَيَّضِي سِتَّةَ أَيَّامٍ، أَوْ سَبْعَةَ أَيَّامٍ، فِي عِلْمِ اللَّهِ، ثُمَّ اغْتَسِلِي، حَتَّى إِذَا رَأَيْتِ أَنَّكِ قَدْ طَهُرْتِ وَاسْتَنْقَأْتِ, فَصَلِّي ثَلَاثًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، أَوْ أَرْبَعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً وَأَيَّامَهَا وَصُومِي, فَإِنَّ ذَلِكَ يَجْزِيكِ، وَكَذَلِكَ فَافْعَلِي فِي كُلِّ شَهْرٍ، كَمَا تَحِيضُ النِّسَاءُ وَكَمَا يَطْهُرْنَ, مِيقَاتُ حَيْضِهِنَّ وَطُهْرِهِنَّ، وَإِنْ قَوِيتِ عَلَى أَنْ تُؤَخِّرِي الظُّهْرَ، وَتُعَجِّلِيَ الْعَصْرَ، فَتَغْتَسِلِينَ وَتَجْمَعِينَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ, الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَتُؤَخِّرِينَ الْمَغْرِبَ، وَتُعَجِّلِينَ الْعِشَاءَ، ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ، وَتَجْمَعِينَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ: فَافْعَلِي، وَتَغْتَسِلِينَ مَعَ الْفَجْرِ فَافْعَلِي، وَصُومِي إِنْ قَدِرْتِ عَلَى ذَلِكَ<. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >وَهَذَا أَعْجَبُ الْأَمْرَيْنِ إِلَيَّ۔ ۔قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ عَمْرُو بْنُ ثَابِتٍ عَنِ ابْنِ عَقِيلٍ قَالَ: فَقَالَتْ حَمْنَةُ: فَقُلْتُ: هَذَا أَعْجَبُ الْأَمْرَيْنِ إِلَيَّ, لَمْ يَجْعَلْهُ مِنْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَهُ كَلَامَ حَمْنَةَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَعَمْرُو بْنُ ثَابِتٍ رَافِضِيٌّ رَجُلُ سُوءٍ وَلَكِنَّهُ كَانَ صَدُوقًا فِي الْحَدِيثِ وَثَابِتُ بْنُ الْمِقْدَامِ رَجُلٌ ثِقَةٌ وَذَكَرَهُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ. قَالَ أَبُو دَاوُد: سَمِعْت أَحْمَدَ يَقُولُ: حَدِيثُ ابْنِ عَقِيلٍ فِي نَفْسِي مِنْهُ شَيْءٌ.

ترجمہ Book - حدیث 287

کتاب: طہارت کے مسائل باب: (مستحاضہ کو) جب حیض آئے تو نماز چھوڑ دے عمران بن طلحہ اپنی والدہ حمنہ بنت حجش ؓا سے روایت کرتے ہیں ۔ حمنہ نے بتایا کہ مجھے بہت زیادہ اور بڑا سخت استحاضہ ہوتا تھا ۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئی کہ آپ سے مسئلہ پوچھوں اور آپ کو اپنی حالت بتاؤں تو میں نے آپ کو اپنی بہن زینب بنت حجش ؓا کے گھر میں پایا ۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! میں ایسی عورت ہوں جسے بہت سخت ، شدید استحاضہ ہوتا ہے ، آپ کا اس کے متعلق کیا ارشاد ہے ؟ اس نے مجھے نماز اور روزے سے بھی روک رکھا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” میرا خیال ہے کہ تم روئی رکھ لیا کرو ، اس سے خون رک جائے گا ۔ “ اس ( حمنہ ) نے کہا : یہ اس سے زیادہ ہوتا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” تو پھر کپڑا باندھ لیا کرو ۔ “ میں نے کہا ، یہ اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے ، میری تو تللی ( دھار ) بہتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” میں تمہیں دو باتیں بتاتا ہوں ان میں سے جو بھی اختیار کر لو کافی ہے ۔ اگر دونوں کی ہمت ہو تو یہ تمہیں معلوم ہو گا ۔ “ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا ” یہ دراصل شیطانی کچوکا ہے ۔ پس تم ( ہر مہینے ) اللہ کے علم کے مطابق چھ یا سات دن حیض کے شمار کرو ، پھر غسل کر لو حتیٰ کہ جب تم اپنے آپ کو پاک صاف سمجھو تو تئیس یا چوبیس دن رات نماز پڑھتی رہو اور روزے رکھو ۔ تمہیں یہ کافی ہے اور ہر مہینے ویسے ہی کیا کرو جیسے کہ عام عورتیں اپنے حیض اور طہر کے دنوں میں کرتی ہیں ۔ ( دوسری صورت ) اور اگر ہمت ہو تو طہر کو مؤخر اور عصر کو جلدی کر کے ان دونوں کو جمع کر لو اور ان کے لیے ایک غسل کرو ۔ پھر مغرب کو مؤخر اور عشاء کو جلدی کرتے ہوئے ایک غسل کر لو اور ان نمازوں کو جمع کر کے پڑھ لو ۔ اور فجر کی نماز کے لیے ( بھی ) غسل کر لو ۔ اگر تم یہ کر سکتی ہو تو کر لیا کرو اور روزے بھی رکھتی جاؤ ۔ “ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اور یہ ( دوسری ) صورت ان دونوں میں سے میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے ۔ “ امام ابوداؤد ؓ نے کہا اس روایت کو عمرو بن ثابت نے ابن عقیل سے نقل کیا اور کہا : حمنہ نے کہا ” یہ صورت میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے ۔ “ اس قول کو اس نے رسول اللہ ﷺ کا فرمان نہیں بتایا ، بلکہ حمنہ کا قول کہا ۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا : عمرو بن ثابت رافضی تھا اور یہ قول یحییٰ بن معین سے ذکر کیا ۔ ( لیکن وہ حدیث میں صدوق ( سچا ) تھا ۔ ) امام ابوداؤد ؓ نے کہا : میں نے امام احمد ؓ سے سنا ، کہتے تھے کہ ابن عقیل کی حدیث کے بارے میں میرے دل میں کچھ ( تردد ) ہے ۔
تشریح : حدیث 286، 287 بھی سنداً ضعیف ہیں ۔ علامہ شوکانی السیل الجرار (ج :1، ص :149) میں کہتے ہیں : استحاضہ کے لیے غسل کے مسئلہ میں کئی احادیث آئی ہیں اور اکثر سنن ابی داؤد میں ہیں ،مگر حفاظ محدثین کی ایک جماعت نے انہیں بصراحت ناقابل حجت قرار دیا ہے ۔ اگر بر بنائے قاعدہ ’’ احادیث بعض بعض کے لیے تقویت کا باعث ہوتی ہیں ۔‘‘ انہیں صحیح بھی تسلیم کیا جائے تو صحیحین وغیرہ میں وارد صحیح ترین اور قوی ترین احادیث کا مقابلے میں ان کوپیش نہیں کیا جاسکتا ۔ صحیحین کی روایات میں حیض کے ختم ہونے پر صرف ایک غسل کا حکم دیا ہے اور ضروری ہے کہ اس قسم کے پرمشقت حکم کے لیے ایسی دلیل ہو جو چمکتے سورج کی مانند روشن ہو ، کجا یہ کہ ضعیف او رناقابل حجت روایات سے ثابت کرنے کی کوشش کی جائے۔‘‘ (مترجم عرض کرتا ہے کہ استحباب وفضیلت میں تو شبہ نہیں ہے جیسے کہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے عمل سے ثابت ہے ۔ مزید اگلے باب کی احادیث ملاحظہ ہوں۔) حدیث 286، 287 بھی سنداً ضعیف ہیں ۔ علامہ شوکانی السیل الجرار (ج :1، ص :149) میں کہتے ہیں : استحاضہ کے لیے غسل کے مسئلہ میں کئی احادیث آئی ہیں اور اکثر سنن ابی داؤد میں ہیں ،مگر حفاظ محدثین کی ایک جماعت نے انہیں بصراحت ناقابل حجت قرار دیا ہے ۔ اگر بر بنائے قاعدہ ’’ احادیث بعض بعض کے لیے تقویت کا باعث ہوتی ہیں ۔‘‘ انہیں صحیح بھی تسلیم کیا جائے تو صحیحین وغیرہ میں وارد صحیح ترین اور قوی ترین احادیث کا مقابلے میں ان کوپیش نہیں کیا جاسکتا ۔ صحیحین کی روایات میں حیض کے ختم ہونے پر صرف ایک غسل کا حکم دیا ہے اور ضروری ہے کہ اس قسم کے پرمشقت حکم کے لیے ایسی دلیل ہو جو چمکتے سورج کی مانند روشن ہو ، کجا یہ کہ ضعیف او رناقابل حجت روایات سے ثابت کرنے کی کوشش کی جائے۔‘‘ (مترجم عرض کرتا ہے کہ استحباب وفضیلت میں تو شبہ نہیں ہے جیسے کہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے عمل سے ثابت ہے ۔ مزید اگلے باب کی احادیث ملاحظہ ہوں۔)