Book - حدیث 2864

كِتَابُ الْوَصَايَا بَابُ مَا جَاءَ فِيمَا لَا يَجُوزِ لِلمُوصِي فِي مَالِهِ صحیح حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ أَبِي خَلَفٍ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ مَرِضَ مَرَضًا قَالَ ابْنُ أَبِي خَلَفٍ بِمَكَّةَ ثُمَّ اتَّفَقَا أَشْفَى فِيهِ فَعَادَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي مَالًا كَثِيرًا وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَتِي أَفَأَتَصَدَّقُ بِالثُّلُثَيْنِ قَالَ لَا قَالَ فَبِالشَّطْرِ قَالَ لَا قَالَ فَبِالثُّلُثِ قَالَ الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ إِنَّكَ أَنْ تَتْرُكَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ وَإِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً إِلَّا أُجِرْتَ بِهَا حَتَّى اللُّقْمَةُ تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَخَلَّفُ عَنْ هِجْرَتِي قَالَ إِنَّكَ إِنْ تُخَلَّفْ بَعْدِي فَتَعْمَلَ عَمَلًا صَالِحًا تُرِيدُ بِهِ وَجْهَ اللَّهِ لَا تَزْدَادُ بِهِ إِلَّا رِفْعَةً وَدَرَجَةً لَعَلَّكَ أَنْ تُخَلَّفَ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ لَكِنْ الْبَائِسُ سَعْدُ بْنُ خَوْلَةَ يَرْثِي لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَاتَ بِمَكَّةَ

ترجمہ Book - حدیث 2864

کتاب: وصیت کے احکام و مسائل باب: مال میں کس قدر وصیت جائز ہے ؟ جناب عامر بن سعد اپنے والد ( سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓ ) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ( حجتہ الوداع کے موقع پر ) مکہ میں بہت سخت بیمار پڑ گئے حتیٰ کہ مرنے کے قریب ہو گئے ۔ رسول اللہ ﷺ ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میرے پاس مال بہت ہے اور ایک بیٹی کے علاوہ میرا کوئی وارث نہیں ‘ تو کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر جاؤں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” نہیں ۔ “ انہوں کہا : آدھا مال ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” نہیں ۔ “ انہوں نے کہا : تو ایک تہائی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” تہائی ( کر سکتے ہو ) اور ایک تہائی بھی زیادہ ہے ۔ تمہارا اپنے وارثوں کو غنی چھوڑ جانا زیادہ بہتر ہے اس سے کہ انہیں فقیر چھوڑ جاؤ کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ۔ اور تم جو بھی خرچ کرتے ہو تو اس پر تمہیں اجر و ثواب ملتا ہے ‘ حتیٰ کہ وہ لقمہ جو تم اپنی بیوی کے منہ کی طرف اٹھاتے ہو ( اس پر بھی تمہیں ثواب ملتا ہے ) ۔ “ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! کیا میں اپنی ہجرت سے پیچھے وہ جاؤں گا ؟ فرمایا ” اگر تم میرے بعد پیچھے وہ بھی گئے تو اللہ کی رضا کے لیے جو بھی عمل صالح کرو گے اس سے تمہارا مقام اور درجہ بلند ہو گا ۔ اور شاید تم میرے بعد زندہ رہو گے حتیٰ کہ تم سے ایک قوم فائدہ اٹھائے گی اور دوسری نقصان ۔ “ پھر فرمایا ” اے اللہ ! میرے اصحاب کی ہجرت مکمل فر دے اور انہیں ان کی ایڑیوں پر لوٹا نہ دے ( مکہ میں ان کی وفات نہ ہو ) لیکن حسرت ہے سعد بن خولہ پر ! “ رسول اللہ ﷺ ان پر افسوس کر رہے تھے کہ وہ مکہ میں وفات پا گئے تھے ۔
تشریح : 1،مال اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔اس لئے اسے حلال ذرائع سے کمانا اور پھر جمع رکھنا کوئی معیوب نہیں بشرط یہ کہ شرعی واجبات ادا کرتا رہے۔مال جمع ہونے کی صورت میں ہی ایک مسلمان ۔ذکواۃ۔حج ۔جہاد۔قربانی۔صدقہ۔ورثہ اوروصیت جیسے احکام پر عمل پیرا ہوسکتاہے۔ورنہ مدات پرعمل محال ہوگا۔ اور جن آیات وحدیث میں مال جمع کرنے کی مذمت ہے۔وہاں حرام مال کمانے شریعت کے تقاضے پورے نہ کرنے اور اس کا محض حریص بننے کی مذمت ہے۔2۔تہائی مال سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں۔3۔فقیروں کی نسبت وارثوں کا حق اولیٰ ہے۔اورانہیں غنی چھوڑ جانا مستحب اور فقیرچھوڑ جانانا پسندیدہ ہے۔ سوائے اس کے کہ وہ توکل کے اعلیٰ مراتب پرہوں۔4۔ واجب اخراجات اور تمام اعمال صالحہ جو راہ اللہ کیے جایئں ان سب میں انسان کواجر وثواب ملتا ہے۔اوردرجات بلند ہوتے ہیں۔5۔حضرت سعد بن ابی وقاصرضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کی بشارت کے مطابق آپ کی رحلت کے بعد تقریبا چوالیس برس حیات رہے۔اور عراق انہی کے ہاتھوں فتح ہوا۔مشہوراور فیصلہ کن جنگ قادسیہ میں مسلمانوں کے کمانڈر آپ ہی تھے۔6۔اس وقت واجب تھا کہ جس علاقے کے مسلمانوں نے اللہ کے لئے ہجرت کی ہو وہاں قیام نہیں کرسکتے۔اس لئے یہ بھی کوشش ہوتی تھی کہ سفر میں بھی وہاں موت نہ آئے۔اور حضرت سعد بن خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مہاجر صحابی تھے۔ پہلے ہجرت حبشہ ثانیہ میں حبشہ گئے وہاں سے لوٹے اور غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔ بالاخرحجۃ الوداع کے موقعہ پر مکہ میں فوت ہوئے۔ 1،مال اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔اس لئے اسے حلال ذرائع سے کمانا اور پھر جمع رکھنا کوئی معیوب نہیں بشرط یہ کہ شرعی واجبات ادا کرتا رہے۔مال جمع ہونے کی صورت میں ہی ایک مسلمان ۔ذکواۃ۔حج ۔جہاد۔قربانی۔صدقہ۔ورثہ اوروصیت جیسے احکام پر عمل پیرا ہوسکتاہے۔ورنہ مدات پرعمل محال ہوگا۔ اور جن آیات وحدیث میں مال جمع کرنے کی مذمت ہے۔وہاں حرام مال کمانے شریعت کے تقاضے پورے نہ کرنے اور اس کا محض حریص بننے کی مذمت ہے۔2۔تہائی مال سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں۔3۔فقیروں کی نسبت وارثوں کا حق اولیٰ ہے۔اورانہیں غنی چھوڑ جانا مستحب اور فقیرچھوڑ جانانا پسندیدہ ہے۔ سوائے اس کے کہ وہ توکل کے اعلیٰ مراتب پرہوں۔4۔ واجب اخراجات اور تمام اعمال صالحہ جو راہ اللہ کیے جایئں ان سب میں انسان کواجر وثواب ملتا ہے۔اوردرجات بلند ہوتے ہیں۔5۔حضرت سعد بن ابی وقاصرضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کی بشارت کے مطابق آپ کی رحلت کے بعد تقریبا چوالیس برس حیات رہے۔اور عراق انہی کے ہاتھوں فتح ہوا۔مشہوراور فیصلہ کن جنگ قادسیہ میں مسلمانوں کے کمانڈر آپ ہی تھے۔6۔اس وقت واجب تھا کہ جس علاقے کے مسلمانوں نے اللہ کے لئے ہجرت کی ہو وہاں قیام نہیں کرسکتے۔اس لئے یہ بھی کوشش ہوتی تھی کہ سفر میں بھی وہاں موت نہ آئے۔اور حضرت سعد بن خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مہاجر صحابی تھے۔ پہلے ہجرت حبشہ ثانیہ میں حبشہ گئے وہاں سے لوٹے اور غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔ بالاخرحجۃ الوداع کے موقعہ پر مکہ میں فوت ہوئے۔