Book - حدیث 2859

كِتَابُ الصَّيدِ بَابٌ فِي اتِّبَاعِ الصَّيْدِ صحیح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنِي أَبُو مُوسَى عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ مَرَّةً سُفْيَانُ وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ سَكَنَ الْبَادِيَةَ جَفَا وَمَنْ اتَّبَعَ الصَّيْدَ غَفَلَ وَمَنْ أَتَى السُّلْطَانَ افْتُتِنَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْحَكَمِ النَّخَعِيُّ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ شَيْخٍ مِنْ الْأَنْصَارِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَعْنَى مُسَدَّدٍ قَالَ وَمَنْ لَزِمَ السُّلْطَانَ افْتُتِنَ زَادَ وَمَا ازْدَادَ عَبْدٌ مِنْ السُّلْطَانِ دُنُوًّا إِلَّا ازْدَادَ مِنْ اللَّهِ بُعْدًا

ترجمہ Book - حدیث 2859

کتاب: شکار کے احکام و مسائل باب: شکار کے پیچھے پڑے رہنا کیسا ہے ؟ سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” جس نے بادیہ ( جنگل ) کی سکونت اختیار کی ‘ وہ سخت دل ہوا ‘ اور جو شکار کے پیچھے پڑا ‘ وہ غافل ہوا اور جو حاکم کے پاس آتا جاتا رہا ‘ آزمائش میں پڑا ۔ “
تشریح : جنگل اور شکار میں انسان آذاد ہوتاہے۔اختلاط اور اجتماعیت نہ ہونے کی وجہ سے نماز باجماعت کی فضیلت سے محرومی کے علاوہ علماء اورصالحین کی مجالس بھی میسر نہیں ہوتیں۔اور نہ کوئی معروف ومنکر ہی کی تنبیہ کرنے والا ہوتاہے۔ اور اس کا اثرطبعیت کی سختی اورغفلت کی صورت میں ظاہرہوتاہے۔جو واضح ہے کہ خسارے کا سودا ہے۔اور اسی طرح بادشاہ کی مجلس میں بالعموم یا تو اس کی ہاں میں ہاں ملانی پڑتی ہے۔ یا مخالفت مول لینی پڑتی ہے۔ اوردونوں صورتوں میں آذمائش وامتحان ہے۔الا ماشاء اللہ۔اس لئے چاہیے کہ انسان ایسی جگہ سکونت اختیار کرے جہاں دونوں سہولتیں میسر ہوں۔ شہری بھی او ردیہاتی بھی جیسے کہ شہر کی مضافاتی بستیاں ہوتی ہیں۔اور یہ استدلال ہے اس مومن سے جس کا ذکر سورہ یٰس میں ہے۔ ( وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ)(یٰس ۔20) اور شہر کی ایک جانب سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا۔اے میری قوم ان رسولوں کی پیروی کرلو۔ اور مقصدصالح کے بغیر بادشاہوں کی صحبت سے بھی احتراز کرنا چاہیے۔اور اس سے مراد دنیا دار بے دین قسم کے بادشاہ ہیں۔مومن بادشاہ کی صحبت میں بلاشبہ کوئی فتنہ نہیں۔الا ماشاء اللہ۔ جنگل اور شکار میں انسان آذاد ہوتاہے۔اختلاط اور اجتماعیت نہ ہونے کی وجہ سے نماز باجماعت کی فضیلت سے محرومی کے علاوہ علماء اورصالحین کی مجالس بھی میسر نہیں ہوتیں۔اور نہ کوئی معروف ومنکر ہی کی تنبیہ کرنے والا ہوتاہے۔ اور اس کا اثرطبعیت کی سختی اورغفلت کی صورت میں ظاہرہوتاہے۔جو واضح ہے کہ خسارے کا سودا ہے۔اور اسی طرح بادشاہ کی مجلس میں بالعموم یا تو اس کی ہاں میں ہاں ملانی پڑتی ہے۔ یا مخالفت مول لینی پڑتی ہے۔ اوردونوں صورتوں میں آذمائش وامتحان ہے۔الا ماشاء اللہ۔اس لئے چاہیے کہ انسان ایسی جگہ سکونت اختیار کرے جہاں دونوں سہولتیں میسر ہوں۔ شہری بھی او ردیہاتی بھی جیسے کہ شہر کی مضافاتی بستیاں ہوتی ہیں۔اور یہ استدلال ہے اس مومن سے جس کا ذکر سورہ یٰس میں ہے۔ ( وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ)(یٰس ۔20) اور شہر کی ایک جانب سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا۔اے میری قوم ان رسولوں کی پیروی کرلو۔ اور مقصدصالح کے بغیر بادشاہوں کی صحبت سے بھی احتراز کرنا چاہیے۔اور اس سے مراد دنیا دار بے دین قسم کے بادشاہ ہیں۔مومن بادشاہ کی صحبت میں بلاشبہ کوئی فتنہ نہیں۔الا ماشاء اللہ۔