Book - حدیث 2826

كِتَابُ الضَّحَايَا بَابٌ فِي الْمُبَالَغَةِ فِي الذَّبْحِ ضعیف حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ وَالْحَسَنُ بْنُ عِيسَى مَوْلَى ابْنِ الْمُبَارَكِ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ زَادَ ابْنُ عِيسَى وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَا: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَرِيطَةِ الشَّيْطَانِ. زَادَ ابْنُ عِيسَى فِي حَدِيثِهِ: وَهِيَ الَّتِي تُذْبَحُ فَيُقْطَعُ الْجِلْدُ، وَلَا تُفْرَى الْأَوْدَاجُ، ثُمَّ تُتْرَكُ حَتَّى تَمُوتَ.

ترجمہ Book - حدیث 2826

کتاب: قربانی کے احکام و مسائل باب: ذبح خوب اچھی طرح سے کرنا چاہیے سیدنا ابن عباس اور سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شیطان کے ذبیحہ سے منع فرمایا ہے ۔ امام ابن عیسیٰ نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ نقل کیا ہے ( شیطان کے ذبیحہ سے مراد یہ ہے کہ ) ذبیحہ کی کھال کاٹ دی جائے مگر رگیں نہ کاٹی جائیں اور پھر اسے یونہی چھوڑ دیا جائے حتیٰ کہ مر جائے ۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں : عمرو بن عبداللہ کو عمرو برق کہا جاتا ہے ، عکرمہ اس کے والد کے ہاں یمن میں مہمان ٹھہرے تھے ۔ اور معمر جب اس سے روایت کرتے ہیں تو وہ عمرو بن عبداللہ کہتے ہیں اور جب اہل یمن روایت کرتے ہیں تو اس کا نام ذکر نہیں کرتے ۔
تشریح : ۔سندا روایت ضعیف ہے۔لیکن مسئلہ اس طرح ہے کہ اس کا جانور حلال نہ ہوگا۔2۔حضرت شداد بن اوسرضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دو باتیں یاد کیں۔آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان کرنا فرض قراردیا ہے۔ لہذا جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے کرو۔اور جب تم کسی جانور کو ذبح کرو تو عمدہ طریقے سے ذبح کرو ذبح کرنے والے ہر شخص کو چاہیے کہ اپنی چھری تیز کرے۔اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے۔(صحیح مسلم الصید والذبائع باب الامر باحسان الذبح والقتل وتحدید الشفرۃ حدیث 1955) علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ خود بھی زبح کرنے سے قبل چھری کو تیز کرنے کا اہتمام فرماتے تھے۔ حدیث کے الفاظ نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم عن شريطة الشيطان رسول اللہ ﷺ نے شیطان کے زبیحہ سے منع فرمایا ہے۔ میں مذکور زبیحہ جانور سے مراد ایسا جانور ہے۔جس کا ذبح کرتے وقت زرا سا حلق کاٹ دیا۔پوری رگیں نہ کاٹیں اور وہ تڑپ تڑپ کر مر گیا۔جاہلیت کے زمانے میں مشرک ایسا ہی کرتے۔چونکہ شیطان نے ان کو بھڑکایا تھا۔ اس لئے ایسے ذبیحہ کو شیطا ن کا ذبیحہ فرمایا۔ اور اس کے ایک معنی ابن عیسیٰ نے بھی بیان فرمائے ہیں۔ جو کہ حدیث میں مذکور ہیں۔ ۔سندا روایت ضعیف ہے۔لیکن مسئلہ اس طرح ہے کہ اس کا جانور حلال نہ ہوگا۔2۔حضرت شداد بن اوسرضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دو باتیں یاد کیں۔آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان کرنا فرض قراردیا ہے۔ لہذا جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے کرو۔اور جب تم کسی جانور کو ذبح کرو تو عمدہ طریقے سے ذبح کرو ذبح کرنے والے ہر شخص کو چاہیے کہ اپنی چھری تیز کرے۔اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے۔(صحیح مسلم الصید والذبائع باب الامر باحسان الذبح والقتل وتحدید الشفرۃ حدیث 1955) علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ خود بھی زبح کرنے سے قبل چھری کو تیز کرنے کا اہتمام فرماتے تھے۔ حدیث کے الفاظ نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم عن شريطة الشيطان رسول اللہ ﷺ نے شیطان کے زبیحہ سے منع فرمایا ہے۔ میں مذکور زبیحہ جانور سے مراد ایسا جانور ہے۔جس کا ذبح کرتے وقت زرا سا حلق کاٹ دیا۔پوری رگیں نہ کاٹیں اور وہ تڑپ تڑپ کر مر گیا۔جاہلیت کے زمانے میں مشرک ایسا ہی کرتے۔چونکہ شیطان نے ان کو بھڑکایا تھا۔ اس لئے ایسے ذبیحہ کو شیطا ن کا ذبیحہ فرمایا۔ اور اس کے ایک معنی ابن عیسیٰ نے بھی بیان فرمائے ہیں۔ جو کہ حدیث میں مذکور ہیں۔