Book - حدیث 2821

كِتَابُ الضَّحَايَا بَابُ الذَّبِيحَةِ بِالْمَرْوَةِ صحیح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّا نَلْقَى الْعَدُوَّ، غَدًا وَلَيْسَ مَعَنَا مُدًى، أَفَنَذْبَحُ بِالْمَرْوَةِ وَشِقَّةِ الْعَصَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >أَرِنْ- أَوْ أَعْجِلْ- مَا أَنْهَرَ الدَّمَ، وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ, فَكُلُوا، مَا لَمْ يَكُنْ سِنًّا، أَوْ ظُفْرًا، وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ ذَلِكَ, أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ، وَأَمَّا الظُّفْرُ فَمُدَى الْحَبَشَةِ<. وَتَقَدَّمَ بِهِ سَرْعَانٌ مِنَ النَّاسِ، فَتَعَجَّلُوا، فَأَصَابُوا مِنَ الْغَنَائِمِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آخِرِ النَّاسِ، فَنَصَبُوا قُدُورًا، فَمَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقُدُورِ، فَأَمَرَ بِهَا، فَأُكْفِئَتْ، وَقَسَمَ بَيْنَهُمْ، فَعَدَلَ بَعِيرًا بِعَشْرِ شِيَاهٍ، وَنَدَّ بَعِيرٌ مِنْ إِبِلِ الْقَوْمِ، وَلَمْ يَكُنْ مَعَهُمْ خَيْلٌ، فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ، فَحَبَسَهُ اللَّهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >إِنَّ لِهَذِهِ الْبَهَائِمِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ، فَمَا فَعَلَ مِنْهَا هَذَا فَافْعَلُوا بِهِ مِثْلَ هَذَا

ترجمہ Book - حدیث 2821

کتاب: قربانی کے احکام و مسائل باب: پتھر سے ذبح کرنے کا مسئلہ سیدنا رافع بن خدیج ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! کل ہم دشمن سے ملیں گے لیکن ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں ‘ تو کیا ہم پتھر سے یا لاٹھی کے تیز پھٹے سے ذبح کر سکتے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” پھرتی دکھا ‘ یا جلدی کر ‘ جو چیز بھی خون بہا دے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ ‘ لیکن دانت یا ناخن نہ ہو ‘ میں تمہیں اس کے متعلق بتاتا ہوں کہ دانت ہڈی ہے اور ناخن حبشی لوگوں کی چھری ہے ۔ “ اور کچھ جلد باز لوگ آگے بڑھے اور انہوں نے جلدی کی ‘ انہیں کچھ غنیمتیں مل گئی تھیں جبکہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کے پیچھے تھے ‘ انہوں نے دیگچے آگ پر رکھ دئیے ‘ رسول اللہ ﷺ ان دیگچوں کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے حکم دیا اور انہیں الٹ دیا گیا اور ان میں ( غنیمتیں ) تقسیم کیں ‘ تو ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر کیا ۔ اور جماعت کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ بھاگ کھڑا ہوا ‘ ان کے پاس گھوڑے نہیں تھے ‘ تو ایک آدمی نے اس کو تیر مارا اور اللہ نے اس کو روک لیا ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” ان جانوروں میں بھی بدک کر بھاگنے والے ہوتے ہیں جیسے کہ دیگر وحشی ( جنگلی جانور ) ‘ تو جوان میں سے اس طرح سے کرے ‘ اس کے ساتھ اسی طرح کرو ۔ “
تشریح : 1۔بوقت ضرورت تیز دھاری دار پتھر اورلکڑی کے تیز چھلکے یا پھٹے وغیرہ سے ذبح کرنا جائز ہے مگر دانت ہڈی۔اور ناخن سے ذبح کرنا جائز نہیں۔کیونکہ اس میں کفار کی مشابہت ہے۔2 ذبح کرتےوقت تکبیر پڑھنا۔اور خون نکلنا لازمی ہے۔3۔جو جانور وحشی بن جائے۔اور قابو میں نہ آرہا ہو تو اسے شکار کی مانند نشانہ مار کرذبح کرنا یا زخمی کرنا حتیٰ کہ قابو میں آجائے جائز ہے۔جب وہ زخمی ہوکرگرجائے تو اس کے گلے پرچھری پھیرکر اسے زبح کرلیا جائے۔4۔امام کو حق حاصل ہے کہ حسب مصلحت مالی تعزیر لگائے۔(جرمانہ کرنا مباح ہے)5۔اسلامی معاشرے میں عدل کا نفاذ اذحد ضروری ہے۔بالخصوص جہاد میں اور کفار کے مقابلے میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔کیونکہ یہ عمل کفار پرنصرت اور غلبے کا ایک اہم عنصر ہے۔6۔اس حدیث میں ایک اونٹ کودس بکریوں کے برابر قرار دینا ا س موقع پرقیمت کی بنیاد پرتھا۔اس سے یہ استدلال کرنا کہ ایک اونٹ میں دس افراد حصہ دار ہوسکتے ہیں۔محل نظر ہے۔لیکن قربانی کے موقع پر ایک اونٹ میں دس افراد کے شریک ہونے کازکر دوسری احادیث سے ثابت ہے۔(تفصیل کےلئے دیکھئے فوائد ومسائل حدیث نمبر 2810) 1۔بوقت ضرورت تیز دھاری دار پتھر اورلکڑی کے تیز چھلکے یا پھٹے وغیرہ سے ذبح کرنا جائز ہے مگر دانت ہڈی۔اور ناخن سے ذبح کرنا جائز نہیں۔کیونکہ اس میں کفار کی مشابہت ہے۔2 ذبح کرتےوقت تکبیر پڑھنا۔اور خون نکلنا لازمی ہے۔3۔جو جانور وحشی بن جائے۔اور قابو میں نہ آرہا ہو تو اسے شکار کی مانند نشانہ مار کرذبح کرنا یا زخمی کرنا حتیٰ کہ قابو میں آجائے جائز ہے۔جب وہ زخمی ہوکرگرجائے تو اس کے گلے پرچھری پھیرکر اسے زبح کرلیا جائے۔4۔امام کو حق حاصل ہے کہ حسب مصلحت مالی تعزیر لگائے۔(جرمانہ کرنا مباح ہے)5۔اسلامی معاشرے میں عدل کا نفاذ اذحد ضروری ہے۔بالخصوص جہاد میں اور کفار کے مقابلے میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔کیونکہ یہ عمل کفار پرنصرت اور غلبے کا ایک اہم عنصر ہے۔6۔اس حدیث میں ایک اونٹ کودس بکریوں کے برابر قرار دینا ا س موقع پرقیمت کی بنیاد پرتھا۔اس سے یہ استدلال کرنا کہ ایک اونٹ میں دس افراد حصہ دار ہوسکتے ہیں۔محل نظر ہے۔لیکن قربانی کے موقع پر ایک اونٹ میں دس افراد کے شریک ہونے کازکر دوسری احادیث سے ثابت ہے۔(تفصیل کےلئے دیکھئے فوائد ومسائل حدیث نمبر 2810)