كِتَابُ الضَّحَايَا بَابُ مَا يَجُوزُ مِنْ السِّنِّ فِي الضَّحَايَا ضعیف حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:َ >لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً، إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ، فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ<.
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
باب: قربانی کے لیے کس عمر کا جانور جائز ہے؟
سیدنا جابر ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” صرف دو دانتا جانور ہی ذبح کرو ‘ سوائے اس کے کہ تمہارے لیے بہت مشکل ہو جائے تو بھیڑ کا جذع ذبح کر سکتے ہو ۔ “
تشریح :
مذکورہ بالاحدیث سے واضح ہوتا ہے کہ آپﷺ نے امت کو مسنہ دودانتا جانور بطور قربانی ذبح کرنے کا حکمدیا۔ اور وقت اور دشواری کی صورت میں جزع قربانی کرنے کی رخصت عنایت فرمائی لیکن دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے۔کہ عام حالات میں بھی جبکہ (مسنہ) دودانتا جانور ملنا مشکل اور دشوار نہ ہو تو جذع بطور قربانی کیا جاسکتا ہے۔جیسا کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ بھیڑ کاجذع قربانی کیا۔(سنن النسائی۔الضحایا۔باب المنسۃ۔والجذعۃ حدیث۔4387۔) اور سنن ابی دائود میں عاصم بن کلیب اپنے والد سے بیان کرتے ہیں۔کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی کے ساتھ تھے۔جن کا نام مجاشع تھا قربانی کے لئے بکریاں تقسیم کی گئیں تو کم ہوگئیں۔پس انہوں نے ایک منادی کرانے والے کو حکم دیا۔کہ وہ اعلان کردے کہ رسول للہ ﷺ فرمایا کرتے تھے۔بلاشبہ جذع(ایک سالہ)مثنی (دو دانتے) کی جگہ کفایت کرتا جاتا ہے۔(سنن ابی دائود الضحایا باب مایجوز فی الضحایا من السنن حدیث 2799)اور اسی طرح ام بلال رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں۔کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! بھیڑ کے جزع کی قربانی کرو۔اس لئے کہ اس کی قربانی جائز ہے۔(مسند احمد۔368/6) مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ عام حالات میں بھی بھیڑ کا جزع قربانی کیا جاسکتا ہے البتہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کی رو سے مسنہ(دودانتا)جانور قربانی کرنا افضل ہے۔جیسا کہ حافظ ابن حجر اس کی بابت فتح الباری میں فرماتے ہیں۔امام نووی نے جمہور علماء سے نقل کیا کہ انھوں نے اس حدیث کو افضلیت پرمحمول کیا ہے۔(فتح الباری 20/10)(جذع) یہ صرف بھیڑ(دنبہ چھتر)میں جائز ہے۔دیگر جانوروں کے بچوں کو اس عمر میں قربانی کرنا جائز نہیں۔رسول اللہﷺ نے چند ایک صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو مجبوری کی صورت میں رخصت اور اجازت مرحمت فرمائی اور ساتھ یہ ارشاد فرمایا ۔تیرے بعد کسی اورکے لئے ایسا کرنا درست نہیں (صحیح البخاری۔الاضاحی۔حدیث 5556)اور یہ بھی احتمال ہے کہ شروع میں دونوں قسم کا جذع جائز ہو بعد میں بکری کے جذع کی قربانی کرنے سے منع کردیا ہو۔ بھیڑ (دنبہ ۔چھترا) کا جذع بطور قربانی کیا جاسکتاہے۔جیسا کہ مذکورہ بالادلائل سے واضح ہے۔ لیکن اس کی عمر کتنی ہو اس بارے میں اختلاف ہے۔بعض نے ایک سال مدت بتلائی ہے۔ بعض نے چھ ماہ بعض نے سات ماہ۔امام انووی اس کی بابت فرماتے ہیں۔ جزع کی عمر کے بارے میں سب سے راحج قول یہ ہے کہ اس کی عمر مکمل ایک سال ہو۔(کتاب المجموع 365/8)حافظ ابن حجر اس کی بابت یوں فرماتے ہیں۔جمہور کے قول کے مطابق بھیڑ (دنبہ چھترا) کاجزع وہ ہے۔جس کی عمر کا ایک سال مکمل ہوچکا ہو۔(فتح الباری۔21/10)لہذا جو حضرات بھیڑ (دنبہ۔چھترا) کی قربانی چاہتے ہوں۔ وہ اس بات کو ضرور مد نظر رکھیں۔ کے اس کی عمر کم از کم ایک سال ہو۔
مذکورہ بالاحدیث سے واضح ہوتا ہے کہ آپﷺ نے امت کو مسنہ دودانتا جانور بطور قربانی ذبح کرنے کا حکمدیا۔ اور وقت اور دشواری کی صورت میں جزع قربانی کرنے کی رخصت عنایت فرمائی لیکن دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے۔کہ عام حالات میں بھی جبکہ (مسنہ) دودانتا جانور ملنا مشکل اور دشوار نہ ہو تو جذع بطور قربانی کیا جاسکتا ہے۔جیسا کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ بھیڑ کاجذع قربانی کیا۔(سنن النسائی۔الضحایا۔باب المنسۃ۔والجذعۃ حدیث۔4387۔) اور سنن ابی دائود میں عاصم بن کلیب اپنے والد سے بیان کرتے ہیں۔کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی کے ساتھ تھے۔جن کا نام مجاشع تھا قربانی کے لئے بکریاں تقسیم کی گئیں تو کم ہوگئیں۔پس انہوں نے ایک منادی کرانے والے کو حکم دیا۔کہ وہ اعلان کردے کہ رسول للہ ﷺ فرمایا کرتے تھے۔بلاشبہ جذع(ایک سالہ)مثنی (دو دانتے) کی جگہ کفایت کرتا جاتا ہے۔(سنن ابی دائود الضحایا باب مایجوز فی الضحایا من السنن حدیث 2799)اور اسی طرح ام بلال رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں۔کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! بھیڑ کے جزع کی قربانی کرو۔اس لئے کہ اس کی قربانی جائز ہے۔(مسند احمد۔368/6) مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ عام حالات میں بھی بھیڑ کا جزع قربانی کیا جاسکتا ہے البتہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کی رو سے مسنہ(دودانتا)جانور قربانی کرنا افضل ہے۔جیسا کہ حافظ ابن حجر اس کی بابت فتح الباری میں فرماتے ہیں۔امام نووی نے جمہور علماء سے نقل کیا کہ انھوں نے اس حدیث کو افضلیت پرمحمول کیا ہے۔(فتح الباری 20/10)(جذع) یہ صرف بھیڑ(دنبہ چھتر)میں جائز ہے۔دیگر جانوروں کے بچوں کو اس عمر میں قربانی کرنا جائز نہیں۔رسول اللہﷺ نے چند ایک صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو مجبوری کی صورت میں رخصت اور اجازت مرحمت فرمائی اور ساتھ یہ ارشاد فرمایا ۔تیرے بعد کسی اورکے لئے ایسا کرنا درست نہیں (صحیح البخاری۔الاضاحی۔حدیث 5556)اور یہ بھی احتمال ہے کہ شروع میں دونوں قسم کا جذع جائز ہو بعد میں بکری کے جذع کی قربانی کرنے سے منع کردیا ہو۔ بھیڑ (دنبہ ۔چھترا) کا جذع بطور قربانی کیا جاسکتاہے۔جیسا کہ مذکورہ بالادلائل سے واضح ہے۔ لیکن اس کی عمر کتنی ہو اس بارے میں اختلاف ہے۔بعض نے ایک سال مدت بتلائی ہے۔ بعض نے چھ ماہ بعض نے سات ماہ۔امام انووی اس کی بابت فرماتے ہیں۔ جزع کی عمر کے بارے میں سب سے راحج قول یہ ہے کہ اس کی عمر مکمل ایک سال ہو۔(کتاب المجموع 365/8)حافظ ابن حجر اس کی بابت یوں فرماتے ہیں۔جمہور کے قول کے مطابق بھیڑ (دنبہ چھترا) کاجزع وہ ہے۔جس کی عمر کا ایک سال مکمل ہوچکا ہو۔(فتح الباری۔21/10)لہذا جو حضرات بھیڑ (دنبہ۔چھترا) کی قربانی چاہتے ہوں۔ وہ اس بات کو ضرور مد نظر رکھیں۔ کے اس کی عمر کم از کم ایک سال ہو۔