Book - حدیث 2792

كِتَابُ الضَّحَايَا بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ الضَّحَايَا حسن حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ، حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ عَنِ ابْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ يَطَأُ فِي سَوَادٍ، وَيَنْظُرُ فِي سَوَادٍ، وَيَبْرُكُ فِي سَوَادٍ، فَأُتِيَ بِهِ، فَضَحَّى بِهِ، فَقَالَ: >يَا عَائِشَةُ! هَلُمِّي الْمُدْيَةَ<، ثُمَّ قَالَ: >اشْحَذِيهَا بِحَجَرٍ<، فَفَعَلَتْ، فَأَخَذَهَا وَأَخَذَ الْكَبْشَ، فَأَضْجَعَهُ وَذَبَحَهُ، وَقَالَ: >بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ<, ثُمَّ ضَحَّى بِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ Book - حدیث 2792

کتاب: قربانی کے احکام و مسائل باب: کس قسم کا جانور قربانی کے لیے مستحب ہے؟ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ‘ ایک مینڈھا لایا جائے جو سینگوں والا ہو ‘ پاؤں کالے ہوں ‘ آنکھیں کالی ہوں ‘ سینہ اور پیٹ بھی کالا ہو ‘ چنانچہ وہ پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے اسے قربان کیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” عائشہ ! چھری لاؤ ۔ “ پھر فرمایا ” اسے پتھر پر تیز کرو ۔ “ میں نے ایسے ہی کیا ، پھر آپ ﷺ نے چھری لی اور مینڈھے کو پکڑا ‘ اسے لٹایا اور ذبح کیا اور دعا کی «للهم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمة محمد» ” اے اﷲ محمد ‘ آل محمد اور امت محمد کی طرف سے قبول فر ۔ “ پھر اسے قربان ( ذبح ) کر دیا ۔
تشریح : قربانی کا جانور صحت مند اور خوش نظر ہونا چاہیے۔مذکورہ بالا صفات پائی جایئں۔تو بہت ہی عمدہ ہے۔2۔چھری خوب تیز ہونی چاہیے۔3۔امت محمد ﷺ کی طرف سے قربانی آپ ﷺ کی خصوصیت تھی۔ہرشخص کو اپنی اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی کرنی چاہیے۔یا اس کی طرف سے جس نے وصیت کی ہو۔4۔اس حدیث سے دلیل لی گئی ہے کہ میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے۔کہ آپﷺ نے اپنی امت کی طرف سے قربانی کی تو ا س میں وہ لوگ بھی تھے۔جو وفات پاچکے تھے۔اور ایک کثیر تعداد وہ تھی۔جو آپﷺ کی رحلت کے بعد پیدا ہوئی۔لیکن اس سے استدلال صحیح نہیں۔ کیونکہ امت کی طرف سے قربانی کرنا نبی کریم ﷺ کی خصوصیت تھی۔جس پردوسروں کے لئے عمل کرناجائز نہیں۔ جیسا کہ اس سے قبل (حدیث۔2791 کے فوائد میں) وضاحت کی گئی ہے۔ قربانی کا جانور صحت مند اور خوش نظر ہونا چاہیے۔مذکورہ بالا صفات پائی جایئں۔تو بہت ہی عمدہ ہے۔2۔چھری خوب تیز ہونی چاہیے۔3۔امت محمد ﷺ کی طرف سے قربانی آپ ﷺ کی خصوصیت تھی۔ہرشخص کو اپنی اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی کرنی چاہیے۔یا اس کی طرف سے جس نے وصیت کی ہو۔4۔اس حدیث سے دلیل لی گئی ہے کہ میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے۔کہ آپﷺ نے اپنی امت کی طرف سے قربانی کی تو ا س میں وہ لوگ بھی تھے۔جو وفات پاچکے تھے۔اور ایک کثیر تعداد وہ تھی۔جو آپﷺ کی رحلت کے بعد پیدا ہوئی۔لیکن اس سے استدلال صحیح نہیں۔ کیونکہ امت کی طرف سے قربانی کرنا نبی کریم ﷺ کی خصوصیت تھی۔جس پردوسروں کے لئے عمل کرناجائز نہیں۔ جیسا کہ اس سے قبل (حدیث۔2791 کے فوائد میں) وضاحت کی گئی ہے۔