Book - حدیث 2790

كِتَابُ الضَّحَايَا بَابُ الْأُضْحِيَّةِ عَنْ الْمَيِّتِ ضعیف حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ حَنَشٍ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ؟ فَقُلْتُ لَهُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ، فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ

ترجمہ Book - حدیث 2790

کتاب: قربانی کے احکام و مسائل باب: میت کی طرف سے قربانی جناب حنش ( حنش الکنانی ‘ حنش صنعانی ) سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی ؓ کو دیکھا کہ وہ دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے ۔ میں نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں ان کی طرف سے قربانی کیا کروں ۔ چنانچہ میں آپ ﷺ کی طرف سے قربانی کیا کرتا ہوں ۔
تشریح : یہ روایت سندا ضعیف ہے۔تاہم امام ابن تیمیہ میت کی طرف سے قربانی کرنے کے قائل ہیں جیسے کہ حج اور صدقہ ہوتا ہے۔لہذا اگر کوئی اپنے کسی فوت شدہ قریبی کی طرف سے قربانی کرے تو جائز ہوگی۔ان کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کرنا جائز ہے۔ تو قربانی بھی جائز ہے کیونکہ یہ بھی تو صدقہ ہے۔اس لئے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے جو قربانی کی جائے۔اس کاسارا گوشت تقسیم کردیاجائے۔خوداس میں سے نہ کھائے۔(تحفۃ الاحوذی)دوسرے علماء کہتے ہیں۔چونکہ نبی کریم ﷺ نے واضح طور پر میت کیطرف سے قربانی کرنے کا ثبوت نہیں ملتا۔حالانکہ آپ ﷺکی زندگی میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاآپ کی تین صاحبزادیاں آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ دنیا سے جا چکے تھے۔لیکن آپ نے ان میں سے کسی کےلئے بھی خصوصی طور پر قربانی جائز نہیں کی۔ البتہ آپ نے اپنی قربانی میں یہ الفاظ ضرور کہے۔ اے اللہ! اس کو محمد ﷺ اور آل محمدﷺ اور امت محمد ﷺ کی طرف سے قبول فرما۔ (صحیح مسلم ۔کتاب لاوضاحی حدیث 1967)اس میں امت محمد ﷺ کے زندہ اور فوت شدہ سارے ہی افراد آجاتےہیں۔اس سے یہ استدلال کیاجاسکتاہے۔کہ اپنی قربانی میں قربانی کرنے والا جن جن کو چاہے شریک کرسکتاہے۔حتیٰ کہ فوت شدگان کوبھی لیکن ہر ایک کی طرف سے الگ الگ قربانی پر اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔بنا بریں صرف فوت شدگان کی طرف سے الگ مستقل قربانی کا جواز محل نظرہوگا۔غالبا اسی لئے شیخ البانی نے یہ موقف اختیار کیاہے۔کہ امت کی طرف سے قربانی کرنے والا عمل نبی کریمﷺ کی خصوصیات میں سے ہے۔جس میں امت کےلئے آپ کی اقتداء جائز نہیں۔دیکھئے۔(الرواالغلیل 353/4)اس کی تایئد اس سے بھی ہوتی ہے۔کہ سلف (صحابہ وتابعین) کے دور میں اس عمل (میت کی طرف سے قربانی کرنے) کا ثبوت نہیں ملتا۔واللہ اعلم۔ یہ روایت سندا ضعیف ہے۔تاہم امام ابن تیمیہ میت کی طرف سے قربانی کرنے کے قائل ہیں جیسے کہ حج اور صدقہ ہوتا ہے۔لہذا اگر کوئی اپنے کسی فوت شدہ قریبی کی طرف سے قربانی کرے تو جائز ہوگی۔ان کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کرنا جائز ہے۔ تو قربانی بھی جائز ہے کیونکہ یہ بھی تو صدقہ ہے۔اس لئے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے جو قربانی کی جائے۔اس کاسارا گوشت تقسیم کردیاجائے۔خوداس میں سے نہ کھائے۔(تحفۃ الاحوذی)دوسرے علماء کہتے ہیں۔چونکہ نبی کریم ﷺ نے واضح طور پر میت کیطرف سے قربانی کرنے کا ثبوت نہیں ملتا۔حالانکہ آپ ﷺکی زندگی میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاآپ کی تین صاحبزادیاں آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ دنیا سے جا چکے تھے۔لیکن آپ نے ان میں سے کسی کےلئے بھی خصوصی طور پر قربانی جائز نہیں کی۔ البتہ آپ نے اپنی قربانی میں یہ الفاظ ضرور کہے۔ اے اللہ! اس کو محمد ﷺ اور آل محمدﷺ اور امت محمد ﷺ کی طرف سے قبول فرما۔ (صحیح مسلم ۔کتاب لاوضاحی حدیث 1967)اس میں امت محمد ﷺ کے زندہ اور فوت شدہ سارے ہی افراد آجاتےہیں۔اس سے یہ استدلال کیاجاسکتاہے۔کہ اپنی قربانی میں قربانی کرنے والا جن جن کو چاہے شریک کرسکتاہے۔حتیٰ کہ فوت شدگان کوبھی لیکن ہر ایک کی طرف سے الگ الگ قربانی پر اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔بنا بریں صرف فوت شدگان کی طرف سے الگ مستقل قربانی کا جواز محل نظرہوگا۔غالبا اسی لئے شیخ البانی نے یہ موقف اختیار کیاہے۔کہ امت کی طرف سے قربانی کرنے والا عمل نبی کریمﷺ کی خصوصیات میں سے ہے۔جس میں امت کےلئے آپ کی اقتداء جائز نہیں۔دیکھئے۔(الرواالغلیل 353/4)اس کی تایئد اس سے بھی ہوتی ہے۔کہ سلف (صحابہ وتابعین) کے دور میں اس عمل (میت کی طرف سے قربانی کرنے) کا ثبوت نہیں ملتا۔واللہ اعلم۔