Book - حدیث 2787

كِتَابُ الْجِهَادِ بَابٌ فِي الْإِقَامَةِ بِأَرْضِ الشِّرْكِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ سُلَيْمَانَ بْنِ سَمُرَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ أَمَّا بَعْدُ, قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >مَنْ جَامَعَ الْمُشْرِكَ وَسَكَنَ مَعَهُ, فَإِنَّهُ مِثْلُهُ<

ترجمہ Book - حدیث 2787

کتاب: جہاد کے مسائل باب: اہل شرک کے علاقے میں اقامت اختیار کر لینا سیدنا سمرہ بن جندب ؓ نے ( اپنے ایک خطبے میں ) بیان کیا امابعد ! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جو شخص کسی مشرک کی صحبت اختیار کرے اور اس کے ساتھ رہائش رکھے تو وہ بھی اسی کی طرح ہے ۔ “
تشریح : ظاہری امور میں کسی کی موافقت ومطابقت لازمی طور پر اس کے ساتھ قلبی ۔زہنی ۔اور فکر ی لگائو پیدا کرتی ہے۔اور جس کسی نے کسی کی ظاہری مشابہت اختیار کی ہوئی ہو وہ یقینا اس سے دلی رغبت رکھتا ہے۔اگرچہ ان دونوں میں زمان ومکان کا کتنا ہی فاصلہ کیوں نہ ہو۔باہمی صحبت اور ہم وطن ہوناخواہ کسی قدر ہو اس سے صرف اخلاق و اعمال ہی نہیں بلکہ بعض اوقات اعتقادات میں بھی خرابی ہونی شروع ہوجاتی ہے۔خواہ اس کی اثر پذیری دھیمی ہی ہو۔اس لئے شریعت نے کفار کی صحبت اور ان کے علاقے میں مستقل رہنے یا ان کی مشابہت اختیار کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے۔(افادات ابن تیمیہ)ایک حدیث میں ہے۔(من كثر سوادقوم فهومنهم) جو کسی قوم کی جمعیت کو بڑھائے وہ بھی انہی میں سے ہے یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے۔جیسا کہ مسند الفردوس دیلمی کے محقق نے صراحت کی ہے۔مسند لفردوس حدیث 5231) لیکن اس مفہوم کی بعض دوسری احادیث صحیح طور پرثابت ہیں۔جیسےسنن ابی دائود کی مسئلہۃ الباب والی حدیث ہے۔یا جیسے(من تشبه بقوم فهو منهم)( سنن ابی دائود لباس حدیث 4031)اسی طرح صحیح بخاری میں آیت قرآنی (إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ)(النساء ۔97)کے شان نزول میں بتلایا گیا ہے۔یہ کہ آیت ان مسلمانوں کی وعید میں نازل ہوئی۔جنھوں نے مسلمان ہونے کے باوجود ہجرت نہیں کی۔اور اپنے علاقوں میں مشرکین ہی کے ساتھ مقیم رہے۔اور ان کی کثرت کا باعث بنے۔تفصیل کےلئے دیکھئے۔(صحیح البخاری۔مع فتح الباری۔ الفتن۔باب من کری ان یکثر سواد الفتن والظلم۔حدیث 7085)لہذا ہر مسلمان پرواجب ہے کہ وہ اہل کفر وشرک کے ملکوں میں رہائش اختیار کرنے سے اجتناب کرے۔الا یہ کہ اشد ضرورت ہو یا مقصوددعوت الی اللہ ہو تو پھر یہ صورت مستثنیٰ ہے۔کیونکہ اس میں خیر عظیم کا پہلو ہے۔کہ آدمی مشرکوں کو اللہ کی توحید کی دعوت دے انہیں اللہ تعالیٰ کی شریعت کی تعلیم دے تو ایسا شخص محسن ہوگا۔اورعلم وبصیرت کے باعث خطرات سے دور بھی ہوگا۔ ظاہری امور میں کسی کی موافقت ومطابقت لازمی طور پر اس کے ساتھ قلبی ۔زہنی ۔اور فکر ی لگائو پیدا کرتی ہے۔اور جس کسی نے کسی کی ظاہری مشابہت اختیار کی ہوئی ہو وہ یقینا اس سے دلی رغبت رکھتا ہے۔اگرچہ ان دونوں میں زمان ومکان کا کتنا ہی فاصلہ کیوں نہ ہو۔باہمی صحبت اور ہم وطن ہوناخواہ کسی قدر ہو اس سے صرف اخلاق و اعمال ہی نہیں بلکہ بعض اوقات اعتقادات میں بھی خرابی ہونی شروع ہوجاتی ہے۔خواہ اس کی اثر پذیری دھیمی ہی ہو۔اس لئے شریعت نے کفار کی صحبت اور ان کے علاقے میں مستقل رہنے یا ان کی مشابہت اختیار کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے۔(افادات ابن تیمیہ)ایک حدیث میں ہے۔(من كثر سوادقوم فهومنهم) جو کسی قوم کی جمعیت کو بڑھائے وہ بھی انہی میں سے ہے یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے۔جیسا کہ مسند الفردوس دیلمی کے محقق نے صراحت کی ہے۔مسند لفردوس حدیث 5231) لیکن اس مفہوم کی بعض دوسری احادیث صحیح طور پرثابت ہیں۔جیسےسنن ابی دائود کی مسئلہۃ الباب والی حدیث ہے۔یا جیسے(من تشبه بقوم فهو منهم)( سنن ابی دائود لباس حدیث 4031)اسی طرح صحیح بخاری میں آیت قرآنی (إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ)(النساء ۔97)کے شان نزول میں بتلایا گیا ہے۔یہ کہ آیت ان مسلمانوں کی وعید میں نازل ہوئی۔جنھوں نے مسلمان ہونے کے باوجود ہجرت نہیں کی۔اور اپنے علاقوں میں مشرکین ہی کے ساتھ مقیم رہے۔اور ان کی کثرت کا باعث بنے۔تفصیل کےلئے دیکھئے۔(صحیح البخاری۔مع فتح الباری۔ الفتن۔باب من کری ان یکثر سواد الفتن والظلم۔حدیث 7085)لہذا ہر مسلمان پرواجب ہے کہ وہ اہل کفر وشرک کے ملکوں میں رہائش اختیار کرنے سے اجتناب کرے۔الا یہ کہ اشد ضرورت ہو یا مقصوددعوت الی اللہ ہو تو پھر یہ صورت مستثنیٰ ہے۔کیونکہ اس میں خیر عظیم کا پہلو ہے۔کہ آدمی مشرکوں کو اللہ کی توحید کی دعوت دے انہیں اللہ تعالیٰ کی شریعت کی تعلیم دے تو ایسا شخص محسن ہوگا۔اورعلم وبصیرت کے باعث خطرات سے دور بھی ہوگا۔