كِتَابُ الْجِهَادِ بَابٌ فِي حَمْلِ السِّلَاحِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ ضعیف حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ ذِي الْجَوْشَنِ- رَجُلٍ مِنَ الضِّبَابِ-، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بَعْدَ أَنْ فَرَغَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ- بِابْنِ فَرَسٍ لِي- يُقَالُ لَهَا: الْقَرْحَاءُ-، فَقُلْتُ: يَا مُحَمَّدُ! إِنِّي قَدْ جِئْتُكَ بِابْنِ الْقَرْحَاءِ, لِتَتَّخِذَهُ، قَالَ: >لَا حَاجَةَ لِي فِيهِ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْ أَقِيضَكَ بِهِ الْمُخْتَارَةَ مِنْ دُرُوعِ بَدْرٍ، فَعَلْتُ<، قُلْتُ: مَا كُنْتُ أَقِيضُهُ الْيَوْمَ بِغُرَّةٍ، قَالَ: >فَلَا حَاجَةَ لِي فِيهِ<
کتاب: جہاد کے مسائل
باب: دشمن کے علاقے میں ہتھیاروں کو لے جانے دینا
بنو ضباب کے ایک شخص ذی الجوشن سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب اہل بدر سے فارغ ہو گئے تو میں آپ ﷺ کی خدمت میں گھوڑے کا ایک بچھیرا لے کر حاضر ہوا اور کہا : اے محمد ! میں آپ کے پاس ابن قرحاء ( ایک بچھیرا ) لے کر آیا ہوں یہ آپ اپنے لیے لے لیجئیے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” مجھے اس کی ضرورت نہیں ‘ لیکن اگر تم چاہو تو تمہیں اس کے بدلے بدر کی منتخب زرہوں میں سے کوئی دے دوں ‘ تو کر سکتا ہوں ۔ “ میں نے کہا : آج تو میں اس کے بدلے میں کوئی گھوڑی بھی نہیں لوں گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” تو پھر مجھے بھی اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ “
تشریح :
امام صاحب کا اس باب کے تحت یہ روایت لانے کا مقصد اس مسئلے کا اثبات ہے۔کہ کسی کافر وغیرہ کو اسلحہ دینا جائز ہے۔جو وہ دارالحرب لے جائے۔ وجہ استدلال یہ ہے کہ زی الجوشن اس وقت کافرتھے۔ان کو رسول اللہ ﷺ نے زرہوں کی پیش کش کی تھی۔ جو انہوں نے قبول نہیں کی۔زرہ بھی ایک جنگی اسلحہ ہے۔اور وہ اسے دارالحرب میں لے جاتے۔ لیکن یہ روایت ہی ضعیف ہے۔دوسرا مسئلہ اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو کوئی ہدیہ دیتا تو آپ بھی اس کو ضرور کوئی ہدیہ دیتے۔جیسے کہ اس روایت میں ہے کہ جب اس نے ہدیے کے بدلے میں ہدیہ لینا پسند نہیں کیا۔تو آپ نے بھی اس کا ہدیہ نا منظور فرمادیا۔نبی کریم ﷺ کا یہ طرز عمل صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
امام صاحب کا اس باب کے تحت یہ روایت لانے کا مقصد اس مسئلے کا اثبات ہے۔کہ کسی کافر وغیرہ کو اسلحہ دینا جائز ہے۔جو وہ دارالحرب لے جائے۔ وجہ استدلال یہ ہے کہ زی الجوشن اس وقت کافرتھے۔ان کو رسول اللہ ﷺ نے زرہوں کی پیش کش کی تھی۔ جو انہوں نے قبول نہیں کی۔زرہ بھی ایک جنگی اسلحہ ہے۔اور وہ اسے دارالحرب میں لے جاتے۔ لیکن یہ روایت ہی ضعیف ہے۔دوسرا مسئلہ اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو کوئی ہدیہ دیتا تو آپ بھی اس کو ضرور کوئی ہدیہ دیتے۔جیسے کہ اس روایت میں ہے کہ جب اس نے ہدیے کے بدلے میں ہدیہ لینا پسند نہیں کیا۔تو آپ نے بھی اس کا ہدیہ نا منظور فرمادیا۔نبی کریم ﷺ کا یہ طرز عمل صحیح احادیث سے ثابت ہے۔