كِتَابُ الْجِهَادِ بَابٌ فِي التِّجَارَةِ فِي الْغَزْوِ ضعیف حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ، عَنْ زَيْدٍ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ, أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَّامٍ, يَقُولُ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَلْمَانَ >أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُ، قَالَ: لَمَّا فَتَحْنَا خَيْبَرَ, أَخْرَجُوا غَنَائِمَهُمْ مِنَ الْمَتَاعِ وَالسَّبْيِ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ غَنَائِمَهُمْ، فَجَاءَ رَجُلٌ حِينَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَقَدْ رَبِحْتُ رِبْحًا مَا رَبِحَ الْيَوْمَ مِثْلَهُ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ هَذَا الْوَادِي! قَالَ: >وَيْحَكَ! وَمَا رَبِحْتَ؟<، قَالَ: مَا زِلْتُ أَبِيعُ وَأَبْتَاعُ، حَتَّى رَبِحْتُ ثَلَاثَ مِائَةِ أُوقِيَّةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >أَنَا أُنَبِّئُكَ بِخَيْرِ رَجُلٍ رَبِحَ!<، قَالَ: مَا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: >رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الصَّلَاةِ<.
کتاب: جہاد کے مسائل
باب: دوران جہاد میں تجارت کرنا جائز ہے
نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے ایک شخص نے عبیداللہ بن سلمان سے بیان کیا کہ جب ہم نے خیبر فتح کیا تو لوگوں نے اپنی اپنی غنیمتیں نکالیں ۔ ( یعنی ) سامان اور قیدی اور انہیں بیچنے لگے ۔ نبی کریم ﷺ نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو ایک آدمی آیا اور کہنے لگا : اے اﷲ کے رسول ! میں نے آج اتنا نفع حاصل کیا ہے کہ اس وادی والوں میں سے کسی کو کیا ملا ہو گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” تو نے کیا ک لیا ہے ؟ اس نے کہا : میں بیچتا رہا اور خریدتا رہا حتیٰ کہ تین سو اوقیہ کا نفع حاصل کر لیا ہے ۔ ( ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” میں تمہیں بتاتا ہوں کہ نفع کمانے میں سب سے افضل کون ہے ؟ “ اس نے پوچھا : وہ کیا ہے اے اﷲ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا ” دو رکعتیں ( فرض ) نماز کے بعد ۔ “
تشریح :
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دوران سفر جہاد میں تجارت کرنے میں شرعا کوئی حرج نہیں۔ایسے تاجر کو جہاد میں اپنا پورا اجر اور غنیمت کا حصہ ملے گا۔جیسے کہ سفر حج میں تجارت کرنا مباح اور جائز ہے۔قرآن مجید میں ہے۔
( لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ)(البقرہ۔198)
تم پرکوئی گناہ نہیں کہ اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔ ہاں اگر ان مبارک سفروں میں کسی کامقصد ہی صرف تجارت کرنا ہو۔ جہاد یا حج محض دکھلاوا ہو۔ تو ہر شخص کےلئے وہی ہے۔جو اس ن نیت کی۔شیخ البانی نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دوران سفر جہاد میں تجارت کرنے میں شرعا کوئی حرج نہیں۔ایسے تاجر کو جہاد میں اپنا پورا اجر اور غنیمت کا حصہ ملے گا۔جیسے کہ سفر حج میں تجارت کرنا مباح اور جائز ہے۔قرآن مجید میں ہے۔
( لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ)(البقرہ۔198)
تم پرکوئی گناہ نہیں کہ اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔ ہاں اگر ان مبارک سفروں میں کسی کامقصد ہی صرف تجارت کرنا ہو۔ جہاد یا حج محض دکھلاوا ہو۔ تو ہر شخص کےلئے وہی ہے۔جو اس ن نیت کی۔شیخ البانی نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے۔