Book - حدیث 2773

كِتَابُ الْجِهَادِ بَابٌ فِي إِعْطَاءِ الْبَشِيرِ صحیح حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ, بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ، فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ... وَقَصَّ ابْنُ السَّرْحِ الْحَدِيثَ. قَالَ: وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمِينَ عَنْ كَلَامِنَا -أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ-، حَتَّى إِذَا طَالَ عَلَيَّ, تَسَوَّرْتُ جِدَارَ حَائِطِ أَبِي قَتَادَةَ- وَهُوَ ابْنُ عَمِّي، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَوَاللَّهِ مَا رَدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ، ثُمَّ صَلَّيْتُ الصُّبْحَ صَبَاحَ خَمْسِينَ لَيْلَةً عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِنَا، فَسَمِعْتُ صَارِخًا: يَا كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ! أَبْشِرْ، فَلَمَّا جَاءَنِي الَّذِي سَمِعْتُ صَوْتَهُ يُبَشِّرُنِي, نَزَعْتُ لَهُ ثَوْبَيَّ، فَكَسَوْتُهُمَا إِيَّاهُ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى إِذَا دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ، فَقَامَ إِلَيَّ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ يُهَرْوِلُ، حَتَّى صَافَحَنِي وَهَنَّأَنِي

ترجمہ Book - حدیث 2773

کتاب: جہاد کے مسائل باب: خوشخبری دینے والے کو کوئی انعام دینا سیدنا کعب بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب بھی کسی سفر سے واپس لوٹتے تو سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے ‘ وہاں دو رکعتیں پڑھتے اور پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھ جاتے ۔ ( امام ابوداؤد کے شیخ ) ابن السرح نے پوری حدیث بیان کی اور کہا : رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو منع فر دیا تھا کہ ہم تینوں سے کوئی بات چیت کرے ۔ حتیٰ کہ جب یہ کیفیت بہت طویل ہو گئی تو میں اپنے چچا زاد ابوقتادہ ؓ کی دیوار پر چڑھا اور میں نے اس کو سلام کہا ۔ اللہ کی قسم ! اس نے مجھے جواب نہیں دیا ۔ پھر جب پچاس راتیں پوری ہو گئیں اور اس صبح فجر کی نماز میں نے اپنے ایک مکان کی چھت پر پڑھی ‘ تو میں نے ایک بلند آواز سے پکارنے والے کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا : اے کعب بن مالک ! خوشخبری ہو ۔ پھر جب وہ میرے پاس پہنچا ‘ جس کی آواز میں نے سنی تھی ‘ تو میں نے اس کے لیے اپنے کپڑے اتارے اور اس کو پہنا دیے ۔ پھر میں چلا حتیٰ کہ جب مسجد میں داخل ہوا تو رسول اللہ ﷺ تشریف فر تھے ۔ طلحہ بن عبیداللہ ؓ دوڑتے ہوئے میری طرف لپکے ‘ حتیٰ کہ مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارک باد پیش کی ۔
تشریح : 1،۔یہ غزوہ تبوک میں حضرت کعب بن ماک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غیر حاضری پر ان کے بائکاٹ سے متعلق واقعہ ہے۔جو فتح مکہ کے بعد سن 9 ہجری میں پیش آیا تھا۔اور یہی وہ غزوہ ہے۔جواس دور کے تمام مسلمانوں پر بالمعوم فرض عین ہواتھا۔مگر مخلص مسلمانوں میں سے تین افراد بغیر کسی معقول عذر کے پیچھے رہ گئے یعنی کعب بن مالک سربراہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لائے۔ تو انہوں نے بصراحت اقرار کیا۔ کہ ہمارے پیچھے رہ جانے میں کوئی شرعی عذر نہ تھا۔چنانچہ آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان سے مقاطعہ کرلیں۔چالیس دن کے بعد حکم آیا کہ یہ اپنی عورتوں سے بھی الگ رہیں۔پچاس دن پورے ہونے پر توبہ قبول کی گئی۔ او ر یہ آیت نازل ہوئی۔ (وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّـهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ)(التوبہ۔118) اور اللہ نے ان تین آدمیوں کی توبہ قبول فرما لی۔جن کا معاملہ موخر کیا گیا تھا۔ یہا ں تک کہ جب زمین باوجود اپنی کشادگی کے ان پرتنگ ہوگئی۔اور خود ان کی جان بھی ان پرتنگ ہوگئی۔اور انہوں نے یقین کرلیا کہ اللہ کے سوائے ان کےلئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ پھر اللہ نے ان پر رجوع فرمایا تاکہ وہ توبہ کرلیں۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا بہت مہربان ہے۔2۔جوشخص خوشخبری پہنچائے اسے ہدیہ دینا مستحب ہے۔ 1،۔یہ غزوہ تبوک میں حضرت کعب بن ماک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غیر حاضری پر ان کے بائکاٹ سے متعلق واقعہ ہے۔جو فتح مکہ کے بعد سن 9 ہجری میں پیش آیا تھا۔اور یہی وہ غزوہ ہے۔جواس دور کے تمام مسلمانوں پر بالمعوم فرض عین ہواتھا۔مگر مخلص مسلمانوں میں سے تین افراد بغیر کسی معقول عذر کے پیچھے رہ گئے یعنی کعب بن مالک سربراہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لائے۔ تو انہوں نے بصراحت اقرار کیا۔ کہ ہمارے پیچھے رہ جانے میں کوئی شرعی عذر نہ تھا۔چنانچہ آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان سے مقاطعہ کرلیں۔چالیس دن کے بعد حکم آیا کہ یہ اپنی عورتوں سے بھی الگ رہیں۔پچاس دن پورے ہونے پر توبہ قبول کی گئی۔ او ر یہ آیت نازل ہوئی۔ (وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّـهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ)(التوبہ۔118) اور اللہ نے ان تین آدمیوں کی توبہ قبول فرما لی۔جن کا معاملہ موخر کیا گیا تھا۔ یہا ں تک کہ جب زمین باوجود اپنی کشادگی کے ان پرتنگ ہوگئی۔اور خود ان کی جان بھی ان پرتنگ ہوگئی۔اور انہوں نے یقین کرلیا کہ اللہ کے سوائے ان کےلئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ پھر اللہ نے ان پر رجوع فرمایا تاکہ وہ توبہ کرلیں۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا بہت مہربان ہے۔2۔جوشخص خوشخبری پہنچائے اسے ہدیہ دینا مستحب ہے۔