كِتَابُ الْجِهَادِ بَابٌ فِي الرُّسُلِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، أَنَّهُ أَتَى عَبْدَ اللَّهِ، فَقَالَ: مَا بَيْنِي وَبَيْنَ أَحَدٍ مِنَ الْعَرَبِ حِنَةٌ، وَإِنِّي مَرَرْتُ بِمَسْجِدٍ لِبَنِي حَنِيفَةَ، فَإِذَا هُمْ يُؤْمِنُونَ بِمُسَيْلِمَةَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ، فَجِيءَ بِهِمْ، فَاسْتَتَابَهُمْ غَيْرَ ابْنِ النَّوَّاحَةِ! قَالَ لَهُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول:ُ >لَوْلَا أَنَّكَ رَسُولٌ, لَضَرَبْتُ عُنُقَكَ<. فَأَنْتَ الْيَوْمَ لَسْتَ بِرَسُولٍ، فَأَمَرَ قَرَظَةَ بْنَ كَعْبٍ فَضَرَبَ عُنُقَهُ فِي السُّوقِ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى ابْنِ النَّوَّاحَةِ قَتِيلًا بِالسُّوقِ.
کتاب: جہاد کے مسائل
باب: سفیر اور قاصدوں ( کی حرمت ) کا بیان
حارثہ بن مضرب ؓ سے منقول ہے کہ وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس آئے ( جبکہ وہ کوفہ میں والی تھے ) اور کہا : مجھے کسی عرب سے کوئی عداوت نہیں اور میں قبیلہ بنو حنیفہ کی مسجد سے گزرا ہوں تو میں نے انہیں پایا ہے کہ وہ لوگ مسلیمہ پر ایمان رکھتے ہیں ( یہ مسجد کوفہ ہی میں تھی ) پس سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ نے انہیں بلوا لیا ‘ انہیں لایا گیا تو انہوں نے ( عبداللہ بن مسعود ؓ نے ) ان سے توبہ کروائی ‘ سوائے ابن نواحہ کے ‘ عبداللہ بن مسعود ؓ نے اس سے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ نے ( تجھ سے ) کہا تھا : ” اگر تو سفیر نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا ۔ “ اور آج تو سفیر یا قاصد نہیں ہے ۔ چنانچہ انہوں نے قرظہ بن کعب ؓ کو حکم دیا تو انہوں نے اس کو بازار میں ( سر عام ) قتل کر دیا ۔ پھر فرمایا جو ابن نواحہ کو مقتول دیکھنا چاہتا ہے وہ اسے بازار میں دیکھ لے ۔
تشریح :
دارالسلام میں کفر اور ارتداد کا کھلے عام اظہار ناقابل معافی جرم ہے۔بالخصوص سرغنے قسم کے لوگوں سے تو کسی قسم کی رعایت نہیں رکھی جاسکتی ۔بعض لوگ اسے حریت فکر کاقائل نہیں۔جس کا نتیجہ الحاد لادینیت اور ارتداد ہو اور اسلام ہی نہیں۔کوئی بھی نظریاتی ملک اپنے اساسی نظریات کے خلاف لب کشائی کی اجازت نہیں دیتا۔اس لئے کہ اس کا نتیجہ فکری انتشار او نظریاتی انارکی کی صورت میں نکلتا ہے ۔یہ آذادی افکار وہی ہے۔جس کی بابت اقبال نے کہا تھا۔
آزادی افکار سے ہے۔ ان کی تباہی رکھتے نہیں جو فکر وتدبر کا سلیقہ
ہوفکر اگرخام تو آذادی افکار انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
اس کی بابت مذید فرمایا!
اس قوم میں ہے شوخی اندیشہ خطرناک جس قوم کے افراد ہوں ہر بندے سے آذاد
گر فکر خداداد سے روشن ہے زمانہ آذادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد
دارالسلام میں کفر اور ارتداد کا کھلے عام اظہار ناقابل معافی جرم ہے۔بالخصوص سرغنے قسم کے لوگوں سے تو کسی قسم کی رعایت نہیں رکھی جاسکتی ۔بعض لوگ اسے حریت فکر کاقائل نہیں۔جس کا نتیجہ الحاد لادینیت اور ارتداد ہو اور اسلام ہی نہیں۔کوئی بھی نظریاتی ملک اپنے اساسی نظریات کے خلاف لب کشائی کی اجازت نہیں دیتا۔اس لئے کہ اس کا نتیجہ فکری انتشار او نظریاتی انارکی کی صورت میں نکلتا ہے ۔یہ آذادی افکار وہی ہے۔جس کی بابت اقبال نے کہا تھا۔
آزادی افکار سے ہے۔ ان کی تباہی رکھتے نہیں جو فکر وتدبر کا سلیقہ
ہوفکر اگرخام تو آذادی افکار انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
اس کی بابت مذید فرمایا!
اس قوم میں ہے شوخی اندیشہ خطرناک جس قوم کے افراد ہوں ہر بندے سے آذاد
گر فکر خداداد سے روشن ہے زمانہ آذادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد