Book - حدیث 2758

كِتَابُ الْجِهَادِ بَابٌ فِي الْإِمَامِ يُسْتَجَنُّ بِهِ فِي الْعُهُودِ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، أَنَّ أَبَا رَافِعٍ أَخْبَرَهُ قَالَ: بَعَثَتْنِي قُرَيْشٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ, أُلْقِيَ فِي قَلْبِي الْإِسْلَامُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي –وَاللَّهِ- لَا أَرْجِعُ إِلَيْهِمْ أَبَدًا! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >إِنِّي لَا أَخِيسُ بِالْعَهْدِ، وَلَا أَحْبِسُ الْبُرُدَ، وَلَكِنِ ارْجِعْ، فَإِنْ كَانَ فِي نَفْسِكَ الَّذِي فِي نَفْسِكَ الْآنَ فَارْجِعْ!<. قَالَ: فَذَهَبْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمْتُ. قَالَ بُكَيْرٌ: وَأَخْبَرَنِي أَنَّ أَبَا رَافِعٍ كَانَ قِبْطِيًّا. قَالَ أَبو دَاود: هَذَا كَانَ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ فَأَمَّا الْيَوْمَ فَلَا يَصْلُحُ.

ترجمہ Book - حدیث 2758

کتاب: جہاد کے مسائل باب: لوگوں پر لازم ہے کہ امام کے طے کردہ عہد و پیمان کی پابندی کریں سیدنا ابورافع ؓ بیان کرتے ہیں کہ ( صلح حدیبیہ کے موقع پر ) قریشیوں نے مجھے رسول اللہ ﷺ کی طرف روانہ کیا ۔ جب میں نے آپ ﷺ کو دیکھا تو میرے دل میں اسلام کی رغبت ڈال دی گئی ‘ پس میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں تو اللہ کی قسم کبھی بھی اب ان کی طرف نہیں جاؤں گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” میں عہد کو نہیں توڑتا اور نہ قاصدوں کو قید کرتا ہوں ‘ تمہیں چاہیئے کہ واپس جاؤ ‘ اگر تمہارے دل میں وہی بات رہے جو اب ہے تو واپس آ جانا ۔ “ کہتے ہیں میں واپس گیا ‘ پھر نبی ﷺ کی خدمت میں لوٹ آیا اور اسلام قبول کر لیا ۔ بکیر کہتے ہیں مجھے ( حسن بن علی نے ) بتایا کہ ( اس کا دادا ) ابورافع قبطی غلام تھا ۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں : یہ اس زمانے میں تھا ( کہ قاصد مسلمان ہونا چاہ رہا تھا تو اسے واپس کر دیا ) آج درست نہیں ہے ۔
تشریح : امام ابو دائود کے قول کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابورافع کا یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کافروں سے مسلمانوں کا یہ معاہدہ طے ہوا تھا کہ کافروں کے پاس سے آنے والے شخص کو واپس لوٹادیا جائے گا۔چاہے وہ مسلمان ہی ہو۔اسی معاہدے کی وجہ سے نبی کریمﷺ نے حضرت ابو رافع کو لوٹایا۔اب اس طرح کرنے کی ضرورت نہیں۔الا یہ کہ اب بھی کسی جگہ اس قسم کا معاہدہ مسلمانوں اور کافروں کے درمیان ہوجائے۔ امام ابو دائود کے قول کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابورافع کا یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کافروں سے مسلمانوں کا یہ معاہدہ طے ہوا تھا کہ کافروں کے پاس سے آنے والے شخص کو واپس لوٹادیا جائے گا۔چاہے وہ مسلمان ہی ہو۔اسی معاہدے کی وجہ سے نبی کریمﷺ نے حضرت ابو رافع کو لوٹایا۔اب اس طرح کرنے کی ضرورت نہیں۔الا یہ کہ اب بھی کسی جگہ اس قسم کا معاہدہ مسلمانوں اور کافروں کے درمیان ہوجائے۔