Book - حدیث 2700

كِتَابُ الْجِهَادِ بَابٌ فِي عَبِيدِ الْمُشْرِكِينَ يَلْحَقُونَ بِالْمُسْلِمِينَ فَيُسْلِمُونَ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: خَرَجَ عِبْدَانٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -يَعْنِي: يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ قَبْلَ الصُّلْحِ-، فَكَتَبَ إِلَيْهِ مَوَالِيهُمْ، فَقَالُوا: يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا خَرَجُوا إِلَيْكَ رَغْبَةً فِي دِينِكَ, وَإِنَّمَا خَرَجُوا هَرَبًا مِنَ الرِّقِّ! فَقَالَ نَاسٌ: صَدَقُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ! رُدَّهُمْ إِلَيْهِمْ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: >مَا أُرَاكُمْ تَنْتَهُونَ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، حَتَّى يَبْعَثَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ مَنْ يَضْرِبُ رِقَابَكُمْ عَلَى هَذَا!<، وَأَبَى أَنْ يَرُدَّهُمْ، وَقَالَ: >هُمْ عُتَقَاءُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ<.

ترجمہ Book - حدیث 2700

کتاب: جہاد کے مسائل باب: مشرکوں کے غلام اگر مسلمانوں سے آ ملیں اور اسلام قبول کر لیں سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ حدیبیہ کے روز صلح سے پہلے کچھ غلام بھاگ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آ گئے تو ان کے مالکوں نے آپ ﷺ کو لکھا : اے محمد ! ( ﷺ ) قسم اﷲ کی ! یہ لوگ تمہارے دین کے شوق میں تمہارے پاس نہیں آئے ہیں ‘ بلکہ غلامی سے بھاگ کر آئے ہیں ۔ صحابہ میں سے کچھ نے کہا : اے اﷲ کے رسول ! انہوں نے سچ کہا ہے ‘ آپ انہیں ان کو واپس لوٹا دیں تو رسول اللہ ﷺ غصے ہوئے اور فرمایا ” اے قریشیو ! میں سمجھتا ہوں کہ تم لوگ اس وقت تک باز نہیں آؤ گے جب تک کہ اﷲ تم پر کسی ایسے کو نہ بھیج دے جو تمہاری اس ( ہٹ دھرمی ) پر تمہاری گردنیں مار دے ۔ “ اور آپ نے ان کو واپس کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا ” یہ اللہ عزوجل کے آزاد کردہ لوگ ہیں ۔ “
تشریح : جب ایک آمی دارالکفر سے نکل بھاگا۔تو اپنے طور پر آزاد ہوگیا۔پھر اسلام قبول کرلیا۔تو اب وہ آذاد ہے۔اس کا اسلام بھی قبول ہے۔اسے کفار کے پاس واپس بھیجنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ جب ایک آمی دارالکفر سے نکل بھاگا۔تو اپنے طور پر آزاد ہوگیا۔پھر اسلام قبول کرلیا۔تو اب وہ آذاد ہے۔اس کا اسلام بھی قبول ہے۔اسے کفار کے پاس واپس بھیجنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔