كِتَابُ الْجِهَادِ بَابٌ فِي الْمَنِّ عَلَى الْأَسِيرِ بِغَيْرِ فِدَاءٍ صحیح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ:، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ ثَمَانِينَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، هَبَطُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ مِنْ جِبَالِ التَّنْعِيمِ عِنْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ, لِيَقْتُلُوهُمْ، فَأَخَذَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِلْمًا، فَأَعْتَقَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ...}[الفتح: 24] إِلَى آخِرِ الْآيَةِ.
کتاب: جہاد کے مسائل
باب: فدیہ لیے بغیر احسان کرتے ہوئے قیدی کو ویسے ہی رہا کر دینا
سیدنا انس بن مالک ؓ کا بیان ہے کہ ( سفر حدیبیہ میں ) اہل مکہ کے اسی ( 80 ) آدمی فجر کی نماز کے وقت تنعیم کے پہاڑوں سے اترے کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب کو قتل کر ڈالیں مگر رسول اللہ ﷺ نے ان کو پکڑ لیا اور انہوں نے بھی اپنے آپ کو ان کے حوالے کر دیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے بعد میں ان کو رہا کر دیا تو اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «وهو الذي كف أيديهم عنكم وأيديكم عنهم ببطن مكة» ” ( اﷲ ) وہ ذات ہے جس نے وادی مکہ میں ان کے ہاتھوں کو تم سے روکے رکھا اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روکے رکھا ۔ “
تشریح :
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
( فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا)(محمد ۔4)
جب کافروں سے گھمسان کا رن پڑے۔تو ان کی گردنوں پروار کرو۔ جب ان کوخوب کاٹ چکو تو اب خوب مظبوط باندھ کر قید کرلو۔پھر اختیار ہے کہ خواہ احسان کر کے چھوڑدو یا فدیہ (عوض اور بدل) لے کر ۔یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے۔
فائدہ۔یہ لوگ قریش کے پرجوش اور جنگ باز نوجوان تھے۔جو اپنے بڑوں کی رائے کے برخلاف مسلمانوں کے ساتھ صلح کے حق میں نہ تھے۔انہوں نے اپنے طور پر یہ خطرناک پروگرام بنایا جس اللہ تعالیٰ نے مٹی میں ملادیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فدیہ لئے بغیر بطور احسان کے ان کو رہا کردیا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
( فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا)(محمد ۔4)
جب کافروں سے گھمسان کا رن پڑے۔تو ان کی گردنوں پروار کرو۔ جب ان کوخوب کاٹ چکو تو اب خوب مظبوط باندھ کر قید کرلو۔پھر اختیار ہے کہ خواہ احسان کر کے چھوڑدو یا فدیہ (عوض اور بدل) لے کر ۔یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے۔
فائدہ۔یہ لوگ قریش کے پرجوش اور جنگ باز نوجوان تھے۔جو اپنے بڑوں کی رائے کے برخلاف مسلمانوں کے ساتھ صلح کے حق میں نہ تھے۔انہوں نے اپنے طور پر یہ خطرناک پروگرام بنایا جس اللہ تعالیٰ نے مٹی میں ملادیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فدیہ لئے بغیر بطور احسان کے ان کو رہا کردیا۔