Book - حدیث 2681

كِتَابُ الْجِهَادِ بَابٌ فِي الْأَسِيرِ يُنَالُ مِنْهُ وَيُضْرَبُ وَيُقَرَّرُ صحیح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ:، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَدَبَ أَصْحَابَهُ، فَانْطَلَقُوا إِلَى بَدْرٍ فَإِذَا هُمْ بِرَوَايَا قُرَيْشٍ، فِيهَا عَبْدٌ أَسْوَدُ لِبَنِي الْحَجَّاجِ، فَأَخَذَهُ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلُوا يَسْأَلُونَهُ: أَيْنَ أَبُو سُفْيَانَ؟ فَيَقُولُ: وَاللَّهِ مَالِي بِشَيْءٍ مِنْ أَمْرِهِ عِلْمٌ وَلَكِنْ هَذِهِ قُرَيْشٌ قَدْ جَاءَتْ، فِيهِمْ أَبُو جَهْلٍ، وَعُتْبَةُ، وَشَيْبَةُ- ابْنَا رَبِيعَةَ-، وَأُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ، فَإِذَا قَالَ لَهُمْ ذَلِكَ ضَرَبُوهُ، فَيَقُولُ: دَعُونِي، دَعُونِي أُخْبِرْكُمْ فَإِذَا تَرَكُوهُ، قَالَ: وَاللَّهِ مَالِي بِأَبِي سُفْيَانَ مِنْ عِلْمٍ، وَلَكِنْ هَذِهِ قُرَيْشٌ قَدْ أَقْبَلَتْ فِيهِمْ أَبُو جَهْلٍ، وَعُتْبَةُ، وَشَيْبَةُ -ابْنَا رَبِيعَةَ-، وَأُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ، قَدْ أَقْبَلُوا -وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَهُوَ يَسْمَعُ ذَلِك-، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: >وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّكُمْ لَتَضْرِبُونَهُ إِذَا صَدَقَكُمْ! وَتَدَعُونَهُ إِذَا كَذَبَكُمْ! هَذِهِ قُرَيْشٌ، قَدْ أَقْبَلَتْ لِتَمْنَعَ أَبَا سُفْيَانَ<. قَالَ أَنَسٌ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا، -وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى الْأَرْضِ-، وَهَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا، وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى الْأَرْضِ، وَهَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا<. -وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى الْأَرْضِ. فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا جَاوَزَ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ مَوْضِعِ يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُخِذَ بِأَرْجُلِهِمْ، فَسُحِبُوا، فَأُلْقُوا فِي قَلِيبِ بَدْرٍ.

ترجمہ Book - حدیث 2681

کتاب: جہاد کے مسائل باب: قیدی کو مار پیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کرنا اور اقرار کرانا سیدنا انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کو بلایا اور پھر بدر کی طرف روانہ ہوئے ۔ تو اچانک انہیں قریش کے اونٹ ملے جن پر وہ پانی ڈھوتے تھے ، ان میں بنی حجاج کا کالے رنگ کا ایک غلام بھی تھا ‘ صحابہ نے اس کو پکڑ لیا اور اس سے تفتیش کرنے لگے کہ ابوسفیان کہاں ہے ؟ اس نے کہا : اﷲ کی قسم ! مجھے اس کے معاملے کی کوئی خبر نہیں ‘ لیکن یہ اہل قریش آئے ہیں ‘ ان میں ابوجہل ‘ ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ و شیبہ اور امیہ بن خلف بھی ہیں ۔ جب وہ صحابہ کو یہ بات کہتا ‘ تو وہ اسے مارنے لگتے ۔ پس وہ کہتا : مجھے چھوڑو ، مجھے چھوڑو ‘ بتاتا ہوں ۔ جب اسے چھوڑ دیتے ‘ تو کہتا : اﷲ کی قسم ! مجھے ابوسفیان کا کوئی علم نہیں ‘ لیکن یہ اہل قریش آئے ہیں ‘ ان میں ابوجہل ‘ ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ و شیبہ اور امیہ بن خلف بھی ہیں ۔ نبی کریم ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور یہ سب سن رہے تھے ۔ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا ” قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جب وہ تمہیں سچ کہتا ہے ‘ تو تم مارنے لگتے ہو اور جب جھوٹ بولتا ہے ‘ تو اسے چھوڑ دیتے ہو ‘ یہ قریش کے لوگ ابوسفیان ہی کو بچانے کے لیے آئے ہیں ۔ “ سیدنا انس ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” کل یہ جگہ فلاں کا مقتل ہو گی ۔ “ اور آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا ۔ “ کل یہ جگہ فلاں کا مقتل ہو گی ۔ “ اور آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا ۔ “ کل یہ جگہ فلاں کا مقتل ہو گی ۔ “ اور آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا ۔ انس کہتے ہیں : قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! ان نامزد لوگوں میں سے کوئی ایک بھی رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ کی جگہ سے ادھر ادھر نہ ہوا ۔ سو رسول اللہ ﷺ نے ان مقتولوں کے متعلق حکم دیا تو انہیں ٹانگوں سے پکڑ پکڑ اور گھسیٹ گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا ۔
تشریح : 1۔احوال مصالح کے پیش نظر قیدی کو مارنا پیٹنا اور اس طرح سے حقائق اگلوانا ایک مطلب اور جائز امر ہے۔2۔یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے۔کہ رسول اللہ ﷺ بسا اوقات کچھ خبریں وقوع پزیر ہونے سے پہلے ہی دے دیا کرتے تھے۔اور آپ ﷺ کو بزریعہ وحی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان امور کی اطلاع دی جاتی تھی۔قرآن مقدس میں ہے۔ (وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ)(النجم ۔3۔4)3۔اس حدیث میں حربی کافروں کے مقتولوں کا عدم احترام بھی ثابت ہوتا ہے۔واللہ اعلم 1۔احوال مصالح کے پیش نظر قیدی کو مارنا پیٹنا اور اس طرح سے حقائق اگلوانا ایک مطلب اور جائز امر ہے۔2۔یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے۔کہ رسول اللہ ﷺ بسا اوقات کچھ خبریں وقوع پزیر ہونے سے پہلے ہی دے دیا کرتے تھے۔اور آپ ﷺ کو بزریعہ وحی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان امور کی اطلاع دی جاتی تھی۔قرآن مقدس میں ہے۔ (وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ)(النجم ۔3۔4)3۔اس حدیث میں حربی کافروں کے مقتولوں کا عدم احترام بھی ثابت ہوتا ہے۔واللہ اعلم