Book - حدیث 2652

كِتَابُ الْجِهَادِ بَابٌ فِي الْجَاسُوسِ الذِّمِّيِّ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُحَبَّبٍ أَبُو هَمَّامٍ الدَّلَّالُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، عَنْ فُرَاتِ بْنِ حَيَّانَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِهِ، وَكَانَ عَيْنًا لِأَبِي سُفْيَانَ، وَكَانَ حَلِيفًا لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَمَرَّ بِحَلَقَةٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: إِنِّي مُسْلِمٌ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّهُ يَقُولُ: إِنَّى مُسْلِمٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >إِنَّ مِنْكُمْ رِجَالًا نَكِلُهُمْ إِلَى إِيمَانِهِمْ، مِنْهُمْ فُرَاتُ بْنُ حَيَّانَ<.

ترجمہ Book - حدیث 2652

کتاب: جہاد کے مسائل باب: کوئی ذمی ( کافر ) مسلمانوں کی جاسوسی کرے تو؟ سیدنا فرات بن حیان ؓ ( اپنے متعلق ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ وہ ابوسفیان کی طرف سے جاسوس بن کر آیا تھا ۔ یہ ایک انصاری کا حلیف بھی تھا ۔ وہ انصاریوں کی ایک جماعت کے پاس سے گزرا اور کہا : بیشک میں مسلمان ہوں ۔ تو ایک انصاری نے کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” تم میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ ہم ان کو ان کے ایمان کے سپرد کر دیتے ہیں ، ان میں سے فرات بن حیان بھی ہے ۔ “
تشریح : مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے اظہار ایمان کو نہیں جھٹلاتے بلکہ ان کے معاملے کو اللہ کے سپرد کردیتے ہیں۔اگر وہ مخلص ہوں گے تو عند اللہ معزز اور اس کے برعکس ہوں گے۔تو عند اللہ مجرم۔لیکن ہم اس کے ساتھ اس کے ظاہر کے مطابق معاملہ کریں گے۔اس سے یہ اصول معلوم ہوا کہ اسلامی مملکت عوام کے ظاہری حالات کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔کیونکہ باطن کا علم تو صرف اللہ ہی کو ہے۔اور وہی قیامت کے دن اس کے مطابق فیصلہ فرمائے گا۔اسی لئے کہا جاتا ہے ۔(نحن نحكم بالظواهر والله يتولي السرائر )ہم صرف ظاہری حالات پر حکم لگاسکتے ہیں۔ جبکہ پوشیدہ معاملات اللہ کے سپرد ہیں۔2۔کافر جاسوس کے قتل کردینے پراتفاق ہے۔مگر مسلمان کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔خواہ منافق ہی ہو۔3۔باب میں ذمی جاسوس کا ذکر ہے۔جب کہ حدیث میں حضرت فرات کے ذمی ہونے کی صراحت نہیں ہے۔لیکن یہی روایت منتقی الاخیار میں مسند احمد کے حوالے سے ہے۔اس میں صراحت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ان کے قتل کا حکم دیا۔وکان ذمیاً اور وہ ذمی تھے۔ ان الفاظ سے باب کے ساتھ مناسبت بھی واضح ہوجاتی ہے۔اور ذمی جاسوس کے قتل کرنے جواز بھی (عون المعبود)4۔فرات بن حیان نے بعد میں اسلام قبول کرلیا۔اور بہت عمدہ مسلمان ثابت ہوئے۔ ہجرت کی اوررسول اللہ ﷺ کے حین حیات آپ کی معیت میں جہاد کرتے رہے۔بعد ازاں کوفہ میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے اظہار ایمان کو نہیں جھٹلاتے بلکہ ان کے معاملے کو اللہ کے سپرد کردیتے ہیں۔اگر وہ مخلص ہوں گے تو عند اللہ معزز اور اس کے برعکس ہوں گے۔تو عند اللہ مجرم۔لیکن ہم اس کے ساتھ اس کے ظاہر کے مطابق معاملہ کریں گے۔اس سے یہ اصول معلوم ہوا کہ اسلامی مملکت عوام کے ظاہری حالات کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔کیونکہ باطن کا علم تو صرف اللہ ہی کو ہے۔اور وہی قیامت کے دن اس کے مطابق فیصلہ فرمائے گا۔اسی لئے کہا جاتا ہے ۔(نحن نحكم بالظواهر والله يتولي السرائر )ہم صرف ظاہری حالات پر حکم لگاسکتے ہیں۔ جبکہ پوشیدہ معاملات اللہ کے سپرد ہیں۔2۔کافر جاسوس کے قتل کردینے پراتفاق ہے۔مگر مسلمان کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔خواہ منافق ہی ہو۔3۔باب میں ذمی جاسوس کا ذکر ہے۔جب کہ حدیث میں حضرت فرات کے ذمی ہونے کی صراحت نہیں ہے۔لیکن یہی روایت منتقی الاخیار میں مسند احمد کے حوالے سے ہے۔اس میں صراحت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ان کے قتل کا حکم دیا۔وکان ذمیاً اور وہ ذمی تھے۔ ان الفاظ سے باب کے ساتھ مناسبت بھی واضح ہوجاتی ہے۔اور ذمی جاسوس کے قتل کرنے جواز بھی (عون المعبود)4۔فرات بن حیان نے بعد میں اسلام قبول کرلیا۔اور بہت عمدہ مسلمان ثابت ہوئے۔ ہجرت کی اوررسول اللہ ﷺ کے حین حیات آپ کی معیت میں جہاد کرتے رہے۔بعد ازاں کوفہ میں سکونت اختیار کرلی تھی۔