Book - حدیث 2645

كِتَابُ الْجِهَادِ بَابُ النَّهْيِ عَنْ قَتْلِ مَنْ اعْتَصَمَ بِالسُّجُودِ صحيح دون جملة العقل حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ: حَدَّثَنَا، أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً إِلَى خَثْعَمٍ، فَاعْتَصَمَ نَاسٌ مِنْهُمْ بِالسُّجُودِ، فَأَسْرَعَ فِيهِمُ الْقَتْلَ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ لَهُمْ بِنِصْفِ الْعَقْلِ، وَقَالَ: >أَنَا بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ، يُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِينَ<، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لِمَ؟ قَالَ: >لَا تَرَاءَى نَارَاهُمَا<. قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ هُشَيْمٌ وَمَعْمَرٌ وَخَالِدٌ الْوَاسِطِيُّ وَجَمَاعَةٌ، لَمْ يَذْكُرُوا جَرِيرًا.

ترجمہ Book - حدیث 2645

کتاب: جہاد کے مسائل باب: جو شخص سجدہ کر کے پناہ چاہے اس کو قتل کرنا ممنوع ہے سیدنا جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ خشعم کی طرف ایک مہم روانہ فرمائی تو ان میں سے کچھ لوگوں نے سجدہ کر کے پناہ حاصل کرنی چاہی لیکن ( مجاہدین نے ان کو ) جلدی جلدی قتل کر ڈالا ۔ نبی کریم ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے ان کو آدھی دیت دینے کا حکم دیا ۔ اور فرمایا ” میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے اندر مقیم ہو ۔ “ انہوں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! کیوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” یعنی دونوں کو ایک دوسرے کی آگ دکھائی نہ دے ( آبادی اس قدر دور دور ہونی چاہیئے ۔ ) امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ہشیم ، معمر ، خالد واسطی اور کئی لوگوں نے روایت کیا ہے اور انہوں نے جریر ؓ کا واسطہ ذکر نہیں کیا ۔
تشریح : 1۔یہ روایت ضعیف ہے مگر بعض آئمہ کے نزدیک صحیح ہے۔البتہ اس میں نصف دیت والا ٹکڑا صیح نہیں ہے۔2۔حدیث کا آخری جملہ (لاترايا ناراهما) کا لفظی ترجمہ یہ ہوسکتا ہے۔کہ ان دونوں یعنی مسلمانوں اور کافروں کی آگیں بھی نظر نہیں آنی چاہیں۔ علامہ خطابی نے اس کی توضیح میں تین قول لکھے ہیں۔(الف)مسلمان اور کافر برابر نہیں۔اور ان کا حکم ایک جیسا نہیں(ب)مسلمانوں کو کافروں سے اس حد تک دور رہنا چاہیے کہ آگ جلائی جائے تو نظر نہ آئے۔اس معنی سے استدلال کیا جاتا ہے کہ دارالحرب میں کسی اشد ضرورت کے پیش نظر چار د ن سے زیادہ اقامت نہ کی جائے (ج)یعنی اہل لغت یہ ترجمہ کرتے ہیں۔ کہ ان دونوں (مسلمان اور مشرک) میں کوئی مشابہت ومماثلت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ معنی عرب کے اس اسلوب کلام سے ماخوذ ہے جس میں وہ بولتے (ما نار بعيرك) تیرے اونٹ کی علامت اوراس کا حال کیسا ہے؟ (نارھا تجارھا) اس کی اونچی کوہان پر دیا گیا داغ اس کے اصیل ہونے کی علامت ہے۔ 2۔جب کوئی شخص کسی طرح اپنے مسلمان ہونے کا اظہار کردے تو اس کا خون اور مال محفوظ ہوجاتا ہے۔4۔کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کے کفار کے ملک میں بالخصوص دارالحرب میں مستقل سکونت اختیار کرے۔5۔واجب ہے کہ مسلمان اپنے عقیدے اور عمل کے علاوہ عادات وثقافت میں بھی کفار سے نمایاں رہے اور ان کی مشابہت ومماثلت اخیتار نہ کرے۔ 1۔یہ روایت ضعیف ہے مگر بعض آئمہ کے نزدیک صحیح ہے۔البتہ اس میں نصف دیت والا ٹکڑا صیح نہیں ہے۔2۔حدیث کا آخری جملہ (لاترايا ناراهما) کا لفظی ترجمہ یہ ہوسکتا ہے۔کہ ان دونوں یعنی مسلمانوں اور کافروں کی آگیں بھی نظر نہیں آنی چاہیں۔ علامہ خطابی نے اس کی توضیح میں تین قول لکھے ہیں۔(الف)مسلمان اور کافر برابر نہیں۔اور ان کا حکم ایک جیسا نہیں(ب)مسلمانوں کو کافروں سے اس حد تک دور رہنا چاہیے کہ آگ جلائی جائے تو نظر نہ آئے۔اس معنی سے استدلال کیا جاتا ہے کہ دارالحرب میں کسی اشد ضرورت کے پیش نظر چار د ن سے زیادہ اقامت نہ کی جائے (ج)یعنی اہل لغت یہ ترجمہ کرتے ہیں۔ کہ ان دونوں (مسلمان اور مشرک) میں کوئی مشابہت ومماثلت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ معنی عرب کے اس اسلوب کلام سے ماخوذ ہے جس میں وہ بولتے (ما نار بعيرك) تیرے اونٹ کی علامت اوراس کا حال کیسا ہے؟ (نارھا تجارھا) اس کی اونچی کوہان پر دیا گیا داغ اس کے اصیل ہونے کی علامت ہے۔ 2۔جب کوئی شخص کسی طرح اپنے مسلمان ہونے کا اظہار کردے تو اس کا خون اور مال محفوظ ہوجاتا ہے۔4۔کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کے کفار کے ملک میں بالخصوص دارالحرب میں مستقل سکونت اختیار کرے۔5۔واجب ہے کہ مسلمان اپنے عقیدے اور عمل کے علاوہ عادات وثقافت میں بھی کفار سے نمایاں رہے اور ان کی مشابہت ومماثلت اخیتار نہ کرے۔