كِتَابُ الْجِهَادِ بَابٌ فِي ابْنِ السَّبِيلِ يَأْكُلُ مِنْ التَّمْرِ وَيَشْرَبُ مِنْ اللَّبَنِ إِذَا مَرَّ بِهِ صحیح حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ الرَّقَّامُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: >إِذَا أَتَى أَحَدُكُمْ عَلَى مَاشِيَةٍ، فَإِنْ كَانَ فِيهَا صَاحِبُهَا فَلْيَسْتَأْذِنْهُ، فَإِنْ أَذِنَ لَهُ فَلْيَحْتَلِبْ، وَلْيَشْرَبْ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهَا، فَلْيُصَوِّتْ ثَلَاثًا، فَإِنْ أَجَابَهُ فَلْيَسْتَأْذِنْهُ، وَإِلَّا فَلْيَحْتَلِبْ وَلْيَشْرَبْ وَلَا يَحْمِلْ<.
کتاب: جہاد کے مسائل
باب: مسافر کسی باغ یا غلے کے پاس سے گزرے تو ( بغیر اجازت پھل ) کھجور ( وغیرہ ) کھا سکتا ہے اور جانوروں کا دودھ پی سکتا ہے
سیدنا سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” جب تم میں سے کوئی ( دوران سفر میں ) جانوروں کے پاس سے گزرے اور ان میں ان کا مالک موجود ہو تو اس سے اجازت لے ‘ اگر وہ اجازت دیدے ‘ تو دودھ دوہ لے اور پی لے ‘ اگر مالک موجود نہ ہو تو تین بار آواز لگائے ‘ اگر وہ جواب دے تو اس سے اجازت طلب کرے ورنہ دودھ نکال لے اور پی لے مگر ساتھ نہ لے جائے ۔ “
تشریح :
ان احادیث کی کتاب الجہاد میں بیان ہون کی وجہ یہ ہے کہ مجاہدین سفر میں ہوتے ہیں۔اور کھانا پینا ان کی لازمی ضرورت ہے۔اور اہل علاقہ یہ ضروریات مہیا کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔2۔علامہ خطابی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں۔کہ یہ رخصت ایسے مسافر کےلئے ہے۔ جو اضطراری (مجبوری کی )کیفیت میں ہوکہ اگر وہ ن کھائےپئے تو ہلاکت کااندیشہ ہو جبکہ کچھ اصحاب الحدیث کہتے ہیں۔یہ ایسا مال ہے کہ نبی کریمﷺ نے اس کا مالک بنایا ہے۔(جان بچانے کی حد تک اسے کھانے کی اجازت دی ہے۔)تو اس کے لئے مباح ہے۔اور اس پرکوئی قیمت لازم نہیں آتی۔مگراکثر فقہاء کا کہنا ہے کہ اس پرقیمت لازم ہوگی۔بشرط یہ کہ وہ قیمت دے سکتاہو۔کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے۔ کسی مسلمان کی خوش دلی اوررضامندی کے بغیر اس کا مال لینا حلال نہیں ہے۔ (مسنداحمد۔72/5)تاہم اگر کسی علاقے کے عرف عام میں تھوڑے بہت کھانے پینے کی اجازت ہوتو وہاں اجازت کی ضرورت ہوگی۔نہ قیمت دینے کی۔عرف عام ہی اجازت کے مترادف ہوگا۔جیسا کہ آج سے پیشتر عام دیہاتوں میں یہ عرف عام تھا۔
ان احادیث کی کتاب الجہاد میں بیان ہون کی وجہ یہ ہے کہ مجاہدین سفر میں ہوتے ہیں۔اور کھانا پینا ان کی لازمی ضرورت ہے۔اور اہل علاقہ یہ ضروریات مہیا کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔2۔علامہ خطابی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں۔کہ یہ رخصت ایسے مسافر کےلئے ہے۔ جو اضطراری (مجبوری کی )کیفیت میں ہوکہ اگر وہ ن کھائےپئے تو ہلاکت کااندیشہ ہو جبکہ کچھ اصحاب الحدیث کہتے ہیں۔یہ ایسا مال ہے کہ نبی کریمﷺ نے اس کا مالک بنایا ہے۔(جان بچانے کی حد تک اسے کھانے کی اجازت دی ہے۔)تو اس کے لئے مباح ہے۔اور اس پرکوئی قیمت لازم نہیں آتی۔مگراکثر فقہاء کا کہنا ہے کہ اس پرقیمت لازم ہوگی۔بشرط یہ کہ وہ قیمت دے سکتاہو۔کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے۔ کسی مسلمان کی خوش دلی اوررضامندی کے بغیر اس کا مال لینا حلال نہیں ہے۔ (مسنداحمد۔72/5)تاہم اگر کسی علاقے کے عرف عام میں تھوڑے بہت کھانے پینے کی اجازت ہوتو وہاں اجازت کی ضرورت ہوگی۔نہ قیمت دینے کی۔عرف عام ہی اجازت کے مترادف ہوگا۔جیسا کہ آج سے پیشتر عام دیہاتوں میں یہ عرف عام تھا۔