Book - حدیث 2607

كِتَابُ الْجِهَادِ بَابٌ فِي الرَّجُلِ يُسَافِرُ وَحْدَهُ حسن حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >الرَّاكِبُ شَيْطَانٌ، وَالرَّاكِبَانِ شَيْطَانَانِ، وَالثَّلَاثَةُ رَكْبٌ<.

ترجمہ Book - حدیث 2607

کتاب: جہاد کے مسائل باب: انسان کا اکیلے سفر کرنا ( مکروہ ہے ) سیدنا عمرو بن شعیب اپنے والد ( شعیب ) سے اور وہ ( شعیب ) اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اکیلا سوار ایک شیطان ہے ‘ دو سوار دو شیطان ہیں اور تین سوار ایک قافلہ ہیں ۔ “
تشریح : ۔انسان کااکیلے سفر کرنا بعض اوقات انتہائی خطرناک ہوسکتاہے۔بالفرض کوئی حادثہ پیش آجائے تو اسے سنبھالنے والا کوئی نہ ہوگا۔اور نہ کوئی خبر ہی ملے گی۔ اس طرح دو افراد کا معاملہ بہت کمزور ہے۔البتہ تین ہوں تو سب کو مکمل سہولت ہوگی۔باجماعت نماز پڑھیں گے۔ایک دوسرے کے انیس اور معاون ہوں گے۔2،۔موجودہ حالات میں بسوں گاڑیوں اورجہازوں میں اگرچہ ایک کثیرتعداد بطور قافلہ کے سفرکرتی ہے۔اور مذکورنہی سے انسان خارج ہوجاتاہے۔مگر انسان کو اپنے محب اور انیس رفیق سفر ہوں۔تو بہت ہی افضل ہے۔کیونکہ عام ہمراہی کئی طرح کے ہوتے ہیں۔بالخصوص اب جبکہ شروفساد بہت بڑھ گیا ہے۔اوردین وامانت میں کمی آتی جارہی ہے۔3۔یہ حدیث تنہا سفر کرنے کی قباحت پر صریح دلالت کرتی ہے۔اس لئے بعض اہل علم نے اس حدیث سے یہ استنباط کیا ہے۔کہ صوفی قسم کے لوگ تن تنہا تہذیب نفس اور مزعومہ چلہ کشی کے نام پرصحرائوں اور بے آباد علاقوں کے جو سفر اخیتار کرتے ہیں۔وہ بھی صریحا غلط اور مردود ہیں۔ایسے ہی وہ چلہ کشی جو آجکل بزرگ اور ولی اللہ بننے کے چکر میں کی جاتی ہے۔یہ بھی قرآن وحدیث کے منافی ہے۔ اس لئے ایسے تمام امور سے احتراز اور اجتناب ضروری ہے۔کیونکہ یہ چیزیں بدعت ہیں۔بدعت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا واضح فرمان ہے۔کہ جس نے بھی دین اسلام میں کوئی نئی بات پیدا کی جو اس میں نہیں ہے وتو وہ مردود ہے۔ـ(صحیح البخاری۔الصلح حدیث 2697) ۔انسان کااکیلے سفر کرنا بعض اوقات انتہائی خطرناک ہوسکتاہے۔بالفرض کوئی حادثہ پیش آجائے تو اسے سنبھالنے والا کوئی نہ ہوگا۔اور نہ کوئی خبر ہی ملے گی۔ اس طرح دو افراد کا معاملہ بہت کمزور ہے۔البتہ تین ہوں تو سب کو مکمل سہولت ہوگی۔باجماعت نماز پڑھیں گے۔ایک دوسرے کے انیس اور معاون ہوں گے۔2،۔موجودہ حالات میں بسوں گاڑیوں اورجہازوں میں اگرچہ ایک کثیرتعداد بطور قافلہ کے سفرکرتی ہے۔اور مذکورنہی سے انسان خارج ہوجاتاہے۔مگر انسان کو اپنے محب اور انیس رفیق سفر ہوں۔تو بہت ہی افضل ہے۔کیونکہ عام ہمراہی کئی طرح کے ہوتے ہیں۔بالخصوص اب جبکہ شروفساد بہت بڑھ گیا ہے۔اوردین وامانت میں کمی آتی جارہی ہے۔3۔یہ حدیث تنہا سفر کرنے کی قباحت پر صریح دلالت کرتی ہے۔اس لئے بعض اہل علم نے اس حدیث سے یہ استنباط کیا ہے۔کہ صوفی قسم کے لوگ تن تنہا تہذیب نفس اور مزعومہ چلہ کشی کے نام پرصحرائوں اور بے آباد علاقوں کے جو سفر اخیتار کرتے ہیں۔وہ بھی صریحا غلط اور مردود ہیں۔ایسے ہی وہ چلہ کشی جو آجکل بزرگ اور ولی اللہ بننے کے چکر میں کی جاتی ہے۔یہ بھی قرآن وحدیث کے منافی ہے۔ اس لئے ایسے تمام امور سے احتراز اور اجتناب ضروری ہے۔کیونکہ یہ چیزیں بدعت ہیں۔بدعت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا واضح فرمان ہے۔کہ جس نے بھی دین اسلام میں کوئی نئی بات پیدا کی جو اس میں نہیں ہے وتو وہ مردود ہے۔ـ(صحیح البخاری۔الصلح حدیث 2697)