Book - حدیث 2537

كِتَابُ الْجِهَادِ بَابٌ فِيمَنْ يُسْلِمُ وَيُقْتَلُ مَكَانَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حسن حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنْ عَمْرَو بْنَ أُقَيْشٍ كَانَ لَهُ رِبًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَكَرِهَ أَنْ يُسْلِمَ حَتَّى يَأْخُذَهُ، فَجَاءَ يَوْمُ أُحُدٍ، فَقَالَ: أَيْنَ بَنُو عَمِّي؟ قَالُوا: بِأُحُدٍ قَالَ: أَيْنَ فُلَانٌ؟ قَالُوا: بِأُحُدٍ، قَالَ: فَأَيْنَ فُلَانٌ؟ قَالُوا: بِأُحُدٍ، فَلَبِسَ لَأْمَتَهُ، وَرَكِبَ فَرَسَهُ، ثُمَّ تَوَجَّهَ قِبَلَهُمْ، فَلَمَّا رَآهُ الْمُسْلِمُونَ، قَالُوا: إِلَيْكَ عَنَّا يَا عَمْرُو! قَالَ: إِنِّي قَدْ آمَنْتُ، فَقَاتَلَ، حَتَّى جُرِحَ، فَحُمِلَ إِلَى أَهْلِهِ جَرِيحًا، فَجَاءَهُ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ، فَقَالَ لِأُخْتِهِ: سَلِيهِ: حَمِيَّةً لِقَوْمِكَ، أَوْ غَضَبًا لَهُمْ، أَمْ غَضَبًا لِلَّهِ؟ فَقَالَ: بَلْ غَضَبًا لِلَّهِ، وَلِرَسُولِهِ، فَمَاتَ، فَدَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَا صَلَّى لِلَّهِ صَلَاةً .

ترجمہ Book - حدیث 2537

کتاب: جہاد کے مسائل باب: جو شخص اسلام لائے اور اسی وقت اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جائے سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ عمرو بن اقیش نے لوگوں سے اسلام سے پہلے کا سود لینا تھا ‘ تو وہ اس کی وصول یابی تک اسلام سے دور رہا ۔ آخر احد کے دن آیا اور پوچھا کہ میرے چچا زاد کہاں ہیں لوگوں نے کہا : احد میں ہیں ‘ پھر پوچھا کہ فلاں کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا : احد میں ہے ۔ پھر پوچھا کہ فلاں کہا ہے ؟ انہوں نے کہا : احد میں ہے ۔ چنانچہ اس نے اپنے ہتھیار پہنے ‘ گھوڑے پر سوار ہوا اور ان لوگوں کی جانب چلا گیا ۔ مسلمانوں نے جب اس کو دیکھا ‘ تو کہا : اے عمرو ! ہم سے دور رہو ۔ اس نے کہا ۔ یقین کرو کہ میں ایمان لا چکا ہوں چنانچہ قتال کرنے لگا حتیٰ کہ زخمی ہو گیا ۔ اسے اسی حالت میں اٹھا کر اس کے اہل میں لایا گیا پس سعد بن معاذ ؓ اس کے پاس آئے اور اس کی بہن سے کہا اس سے پوچھو ( کہ اس نے جنگ میں حصہ کیوں لیا ہے ) اپنی قوم کی حمیت و حمایت میں ‘ یا ان کے لیے غصہ کی بنا پر ‘ یا اللہ کے لیے غصے کی وجہ سے ؟ تو اس نے کہا : بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کے لیے غصے کی وجہ سے ( اس جنگ میں شریک ہوا ہوں ) چنانچہ فوت ہو گیا اور جنت میں داخل ہوا اور اس نے اللہ کے لیے ایک بھی نماز نہیں پڑھی تھی ۔
تشریح : 1۔اللہ اور اس کے رسولﷺ کی حمیت اور حمایت میں اپنی جان وار دینا اور اسی کےلئے اپنی محبت اور غصے کے جذبات کا اظہار کرنا ایمان کامل کی علامت اور اللہ کے ہاں نجات کی ضمانت ہے۔2۔نماز اسلام کا بنیادی رکن ہے۔ مگر عمرو بن اقیش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کے سیکھنے اور ادا کرنے کاموقع ہی نہیں ملا تو اس لئے معذور سمجھے گئے۔3۔وہ لوگ سمجھتے تھے کہ اسلام ایک عملی اور باضابطہ دین ہے۔اس میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مخالفت ومعصیت کا کوئی تصور نہیں اور نہ حرام کی گنجائش ہے۔اسی وجہ سے حضرت عمر و نے اپنے اسلام کو موخر کیا۔یہ ان کی سعادت تھی کہ اللہ عزوجل نے ان کو مہلت دی۔اور وہ اسلام اور پھر شہادت سے بہرہ ور ہوگئے۔4۔یہ واقعہ کسی شخص کو اپنا اسلام یا گنا ہ سے توبہ کو موخر کرنے کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔نہ معلوم مطلب پورا ہونے تک زندگی کی مہلت بھی ملے گی یا نہیں۔یا کہیں نیت ہی نہ بدل جائے۔یا حالات سازگار نہ رہیں۔اور پھر اسلام یا توبہ سے محروم رہ گیا تو ہمیشہ کی محرومی کا سامنا ہوگا۔ 1۔اللہ اور اس کے رسولﷺ کی حمیت اور حمایت میں اپنی جان وار دینا اور اسی کےلئے اپنی محبت اور غصے کے جذبات کا اظہار کرنا ایمان کامل کی علامت اور اللہ کے ہاں نجات کی ضمانت ہے۔2۔نماز اسلام کا بنیادی رکن ہے۔ مگر عمرو بن اقیش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کے سیکھنے اور ادا کرنے کاموقع ہی نہیں ملا تو اس لئے معذور سمجھے گئے۔3۔وہ لوگ سمجھتے تھے کہ اسلام ایک عملی اور باضابطہ دین ہے۔اس میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مخالفت ومعصیت کا کوئی تصور نہیں اور نہ حرام کی گنجائش ہے۔اسی وجہ سے حضرت عمر و نے اپنے اسلام کو موخر کیا۔یہ ان کی سعادت تھی کہ اللہ عزوجل نے ان کو مہلت دی۔اور وہ اسلام اور پھر شہادت سے بہرہ ور ہوگئے۔4۔یہ واقعہ کسی شخص کو اپنا اسلام یا گنا ہ سے توبہ کو موخر کرنے کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔نہ معلوم مطلب پورا ہونے تک زندگی کی مہلت بھی ملے گی یا نہیں۔یا کہیں نیت ہی نہ بدل جائے۔یا حالات سازگار نہ رہیں۔اور پھر اسلام یا توبہ سے محروم رہ گیا تو ہمیشہ کی محرومی کا سامنا ہوگا۔