كِتَابُ الْجِهَادِ بَابٌ فِي الرَّجُلِ يَغْزُو يَلْتَمِسُ الْأَجْرَ وَالْغَنِيمَةَ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي ضَمْرَةُ أَنَّ ابْنَ زُغْبٍ الْإِيَادِيَّ، حَدَّثَهُ قَالَ: نَزَلَ عَلَيَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَوَالَةَ الْأَزْدِيُّ، فَقَالَ لِي: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَغْنَمَ عَلَى أَقْدَامِنَا، فَرَجَعْنَا، فَلَمْ نَغْنَمْ شَيْئًا، وَعَرَفَ الْجَهْدَ فِي وُجُوهِنَا، فَقَامَ فِينَا، فَقَالَ: >اللَّهُمَّ لَا تَكِلْهُمْ إِلَيَّ فَأَضْعُفَ عَنْهُمْ، وَلَا تَكِلْهُمْ إِلَى أَنْفُسِهِمْ فَيَعْجِزُوا عَنْهَا، وَلَا تَكِلْهُمْ إِلَى النَّاسِ فَيَسْتَأْثِرُوا عَلَيْهِمْ<. ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِي، -أَوْ قَالَ: عَلَى هَامَتِي-، ثُمَّ قَالَ: >يَا ابْنَ حَوَالَةَ! إِذَا رَأَيْتَ الْخِلَافَةَ قَدْ نَزَلَتْ أَرْضَ الْمُقَدَّسَةِ، فَقَدْ دَنَتِ الزَّلَازِلُ، وَالْبَلَابِلُ، وَالْأُمُورُ الْعِظَامُ، وَالسَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنَ النَّاسِ مِنْ يَدِي هَذِهِ مِنْ رَأْسِكَ<. قَالَ أَبو دَاود: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَوَالَةَ حِمْصِيٌّ.
کتاب: جہاد کے مسائل
باب: جو کوئی جہاد میں ثواب اور غنیمت کی نیت رکھتا ہو
ابن زغب ایادی نے بیان کیا کہ سیدنا عبداللہ بن حوالہ ازدی ؓ میرے مہمان بنے تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا : رسول اللہ ﷺ نے ہم کو پیدل ( جہاد کے لیے ) روانہ فرمایا تاکہ کوئی غنیمت حاصل کر لائیں ۔ پس ہم واپس آئے اور ہمیں کوئی غنیمت نہ ملی ۔ آپ ﷺ نے مشقت اور غمی کے آثار ہمارے چہروں پر دیکھے تو کھڑے ہوئے اور ( دعا کرتے ہوئے ) فرمایا ’’ اے اللہ ! انہیں میرے سپرد نہ کر دے کہ ان کی کفالت سے عاجز رہوں اور نہ انہیں ان کی اپنی جانوں کے سپرد کر دے کہ اپنی کفالت سے عاجز رہیں اور نہ انہیں لوگوں کے سپرد کر دینا کہ وہ اپنے آپ ہی کو ترجیح دینے لگیں ۔ پھر آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک میرے سر پر رکھا اور فرمایا ’’ اے ابن حوالہ ! جب تم دیکھو کہ خلافت ارض مقدس ( شام ) تک پہنچ گئی ہے تو زلزلے آنے لگیں گے ‘ مصیبتیں ٹوٹیں گی ۔ ( علاوہ ازیں ) اور بھی بڑی بڑی علامتیں ظاہر ہوں گی اور قیامت اس وقت لوگوں کے اس سے زیادہ قریب ہو گی جتنا کہ میرا ہاتھ تمہارے سر پر ہے ۔ ‘‘ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن حوالہ ؓ کا تعلق حمص سے ہے ۔
تشریح :
1۔جہاد میں اجر وثواب کے ساتھ ساتھ غنیمت کی توقع رکھنا کوئی معیوب نہیں۔ بشرط یہ کہ یہ نیت ہی اصل مقصود نہ ہو اتنا ضرور ہے کہ یہ غنیمت حاصل ہونے سے آخرت کے اجر میں کمی آجاتی ہے۔جیسے کہ (باب فی السریہ تخفق)حدیث 2497)میں گزرا ہے۔2۔اللہ تعالیٰ نے مال کو انسان کےلئے گزران کا ایک اہم سبب بنایا ہے جب کہ حقیقی کفیل خود اللہ عزوجل ہے۔اگر وہ اسباب مہیا نہ فرمائے۔اور ان میں برکت نہ دےتو کائنات کے تمام افراد اور اس کے کل اسباب پرکاہ ک حیثیت بھی نہیں رکھتے۔3۔مستقبل کے امور غیبہ کی خبریں نبی کریم ﷺکی نبوت کی صداقت کی دلیل ہیں۔کہ فتح بیت المقدس کے بعد سے دنیا میں اور امت اسلامیہ میں مذکورہ بالاعلامات تواتر سے ظاہر ہورہی ہیں۔2۔قیامت ازحد قریب ہے۔لہذا ہر انسان کو اس کی فکر کرنی چاہیے۔
1۔جہاد میں اجر وثواب کے ساتھ ساتھ غنیمت کی توقع رکھنا کوئی معیوب نہیں۔ بشرط یہ کہ یہ نیت ہی اصل مقصود نہ ہو اتنا ضرور ہے کہ یہ غنیمت حاصل ہونے سے آخرت کے اجر میں کمی آجاتی ہے۔جیسے کہ (باب فی السریہ تخفق)حدیث 2497)میں گزرا ہے۔2۔اللہ تعالیٰ نے مال کو انسان کےلئے گزران کا ایک اہم سبب بنایا ہے جب کہ حقیقی کفیل خود اللہ عزوجل ہے۔اگر وہ اسباب مہیا نہ فرمائے۔اور ان میں برکت نہ دےتو کائنات کے تمام افراد اور اس کے کل اسباب پرکاہ ک حیثیت بھی نہیں رکھتے۔3۔مستقبل کے امور غیبہ کی خبریں نبی کریم ﷺکی نبوت کی صداقت کی دلیل ہیں۔کہ فتح بیت المقدس کے بعد سے دنیا میں اور امت اسلامیہ میں مذکورہ بالاعلامات تواتر سے ظاہر ہورہی ہیں۔2۔قیامت ازحد قریب ہے۔لہذا ہر انسان کو اس کی فکر کرنی چاہیے۔