Book - حدیث 2516

كِتَابُ الْجِهَادِ بَابٌ فِي مَنْ يَغْزُو وَيَلْتَمِسُ الدُّنْيَا حسن حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنِ ابْنِ مِكْرَزٍ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! رَجُلٌ يُرِيدُ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَهُوَ يَبْتَغِي عَرَضًا مِنْ عَرَضِ الدُّنْيَا؟! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >لَا أَجْرَ لَهُ<، فَأَعْظَمَ ذَلِكَ النَّاسُ! وَقَالُوا لِلرَّجُلِ: عُدْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ, فَلَعَلَّكَ لَمْ تُفَهِّمْهُ؟ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! رَجُلٌ يُرِيدُ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَهُوَ يَبْتَغِي عَرَضًا مِنْ عَرَضِ الدُّنْيَا؟! فَقَالَ: >لَا أَجْرَ لَهُ<، فَقَالُوا لِلرَّجُلِ: عُدْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ الثَّالِثَةَ! فَقَالَ لَهُ: >لَا أَجْرَ لَهُ<.

ترجمہ Book - حدیث 2516

کتاب: جہاد کے مسائل باب: دنیا کی طلب میں غزوہ کرنے والا سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ایک انسان جہاد کے لیے نکلتا ہے مگر وہ دنیا کا مال چاہتا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اس کے لیے کوئی اجر نہیں ۔ “ لوگوں نے اس فرمان کو بہت گراں جانا ، انہوں نے اس آدمی سے کہا : دوبارہ پوچھو ، شاید تم اپنی بات واضح نہیں کر سکے ہو ۔ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ایک انسان جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکلتا ہے اور وہ دنیا کا مال چاہتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” اس کے لیے کوئی ثواب نہیں ۔ “ لوگوں نے اس آدمی سے کہا : رسول اللہ ﷺ سے پھر پوچھو ۔ اس نے آپ ﷺ سے تیسری بار پوچھا تو بھی آپ ﷺ نے اسے یہ فرمایا ” اس کو کوئی ثواب نہیں ۔ “
تشریح : اگر مجاہد کی نیت بنیادی طور پر ریا کاری اور حصول مال کی ہو تو اس کا سب عمل باطل ہے۔اس کے لئے کوئی اجر نہیں۔لیکن اگر اصل اور بنیادی نیت جہاد اور اللہ کا کلمہ بلند کرنا اور ا س کے ساتھ حصول مال جیسی نیت بھی خلط ملط ہوجائے تو اس سے اجر میں کمی آجاتی ہے۔عمل باطل نہیں ہوتا۔جیسے کہ سابقہ حدیث 2497 میں گزرا ہے۔کہ مجاہدین کو اگر غنیمت مل جائے تو اپنا وہ دو تہائی اجر اس دنیا میں ہی حاصل کرلیتے ہیں۔ورنہ ان کا سارا اجر محفوظ رہتا ہے۔امام احمد فرماتے ہیں کہ جہاد میں تاجر مزدور اور کرائے پر کام کرنے والے افراد کا اجر ان کی اپنی اپنی نیت کی مقدار پر ہوتا ہے نیت اور اخلاص کا معاملہ انتہائی مشکل اور توجہ طلب ہوتا ہے۔اس مسئلہ میں جامع العلوم والحکم (لابن رجب حنبلی) میں شرح حدیث ۔انما الاعمال بالنیات بار بار پڑھنے کے لائق ہے۔ اگر مجاہد کی نیت بنیادی طور پر ریا کاری اور حصول مال کی ہو تو اس کا سب عمل باطل ہے۔اس کے لئے کوئی اجر نہیں۔لیکن اگر اصل اور بنیادی نیت جہاد اور اللہ کا کلمہ بلند کرنا اور ا س کے ساتھ حصول مال جیسی نیت بھی خلط ملط ہوجائے تو اس سے اجر میں کمی آجاتی ہے۔عمل باطل نہیں ہوتا۔جیسے کہ سابقہ حدیث 2497 میں گزرا ہے۔کہ مجاہدین کو اگر غنیمت مل جائے تو اپنا وہ دو تہائی اجر اس دنیا میں ہی حاصل کرلیتے ہیں۔ورنہ ان کا سارا اجر محفوظ رہتا ہے۔امام احمد فرماتے ہیں کہ جہاد میں تاجر مزدور اور کرائے پر کام کرنے والے افراد کا اجر ان کی اپنی اپنی نیت کی مقدار پر ہوتا ہے نیت اور اخلاص کا معاملہ انتہائی مشکل اور توجہ طلب ہوتا ہے۔اس مسئلہ میں جامع العلوم والحکم (لابن رجب حنبلی) میں شرح حدیث ۔انما الاعمال بالنیات بار بار پڑھنے کے لائق ہے۔