Book - حدیث 2507

كِتَابُ الْجِهَادِ بَابُ فِي الرُّخْصَةِ فِي الْقُعُودِ مِنْ الْعُذْرِ حسن صحیح حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: كُنْتُ إِلَى جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَغَشِيَتْهُ السَّكِينَةُ، فَوَقَعَتْ فَخِذُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَخِذِي، فَمَا وَجَدْتُ ثِقْلَ شَيْءٍ أَثْقَلَ مِنْ فَخِذِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ، فَقَالَ: >اكْتُبْ<، فَكَتَبْتُ فِي كَتِفٍ: {لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ...}[النساء: 95]، {وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ...}[النساء: 95] إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَقَامَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ -وَكَانَ رَجُلًا أَعْمَى- لَمَّا سَمِعَ فَضِيلَةَ الْمُجَاهِدِينَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَكَيْفَ بِمَنْ لَا يَسْتَطِيعُ الْجِهَادَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ؟! فَلَمَّا قَضَى كَلَامَهُ غَشِيَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّكِينَةُ، فَوَقَعَتْ فَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي، وَوَجَدْتُ مِنْ ثِقَلِهَا فِي الْمَرَّةِ الثَّانِيَةِ، كَمَا وَجَدْتُ فِي الْمَرَّةِ الْأُولَى، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: >اقْرَأْ يَا زَيْدُ<. فَقَرَأْتُ: {لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ}[النساء: 95]، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ...}[النساء: 95] الْآيَةَ كُلَّهَا، قَالَ زَيْدٌ: فَأَنْزَلَهَا اللَّهُ وَحْدَهَا، فَأَلْحَقْتُهَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ-، لَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُلْحَقِهَا عِنْدَ صَدْعٍ فِي كَتِفٍ.

ترجمہ Book - حدیث 2507

کتاب: جہاد کے مسائل باب: کسی ( معقول ) عذر کے باعث جہاد کے لیے نہ جانا درست ہے سیدنا زید بن ثابت ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا کہ آپ ﷺ کو سکینت نے ڈھانپ لیا ( وحی کا نزول شروع ہو گیا ) اور رسول اللہ ﷺ کی ران میری ران پر آ گئی ، مجھے آپ ﷺ کی ران سے جو بوجھ محسوس ہوا کسی اور چیز سے محسوس نہیں ہوا ۔ جب آپ ﷺ سے یہ کیفیت دور ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا ” لکھو ۔ “ چنانچہ میں نے شانے کی ہڈی پر لکھا : «لا يستوي القاعدون ***» ( آخر آیت تک ) ” اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومنین اور بیٹھ رہنے والے برابر نہیں ہو سکتے ۔ ۔ ۔ “ ابن ام مکتوم جو نابینا صحابی تھے انہوں نے جب مجاہدین کی یہ فضیلت سنی تو کھڑے ہوئے اور کہا : اے اللہ کے رسول ! مومنین میں سے ایسے شخص کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو جہاد کی استطاعت نہ رکھتا ہو ؟ انہوں نے جب اپنی بات پوری کی تو رسول اللہ ﷺ کو سکینت نے ڈھانپ لیا اور آپ کی ران میری ران پر آ گئی ، اور دوسری بار بھی میں نے اسی طرح کا بوجھ محسوس کیا جو پہلے محسوس کیا تھا ۔ پھر جب آپ سے یہ کیفیت دور ہوئی تو آپ نے فرمایا ” اے زید ! پڑھو ۔ “ میں نے پڑھا : «لا يستوي القاعدون من المؤمنين» تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا «غير أولي الضرر» ” سوائے ان کے جنہیں کوئی عذر ہو ۔ “ اور باقی آیت اسی طرح رہی ۔ سیدنا زید ؓ فرماتے ہیں کہ «غير أولي الضرر» کے لفظ اللہ نے علیحدہ سے نازل فرمائے اور میں نے ان کو ان کی جگہ پر لکھ دیا ۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! گویا میں شانے کی ہڈی کے اس درز کو دیکھ رہا ہوں جہاں میں نے اس کو ملایا تھا ۔
تشریح : 1۔مریض۔نابینا۔اپاہج۔یا دیگر شرعی عذر کی بنا ء پر اگر کوئی جہاد سے پیچھے رہ جائے۔تو مباح ہے لیکن جب نفیر عام کا حکم ہو تو بلا عذر پیچھے رہنا کسی طرح روا نہیں۔2۔نزول وحی کے وقت رسول اللہ ﷺ پر انتہائی بوجھ پڑتا تھا۔ حتیٰ کے سخت سردی میں بھی آپﷺ کو پسینہ آجاتا تھا۔اور اگر آپ اونٹنی پر ہوتے تو وہ بھی ٹک کرکھڑی ہوجاتی تھی۔اور چل نہ سکتی تھی۔3۔قرآن مجید جس قدر اترتا تھا نبی کریم ﷺ اس کی کتابت کروادیاکرتے تھے۔البتد ابتداء احادیث کے لکھنے کی عام اجازت نہ تھی۔سوائے چند ایک صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کےزیادہ وثائق جو آپ نے بالخصوص لکھوائے۔ 1۔مریض۔نابینا۔اپاہج۔یا دیگر شرعی عذر کی بنا ء پر اگر کوئی جہاد سے پیچھے رہ جائے۔تو مباح ہے لیکن جب نفیر عام کا حکم ہو تو بلا عذر پیچھے رہنا کسی طرح روا نہیں۔2۔نزول وحی کے وقت رسول اللہ ﷺ پر انتہائی بوجھ پڑتا تھا۔ حتیٰ کے سخت سردی میں بھی آپﷺ کو پسینہ آجاتا تھا۔اور اگر آپ اونٹنی پر ہوتے تو وہ بھی ٹک کرکھڑی ہوجاتی تھی۔اور چل نہ سکتی تھی۔3۔قرآن مجید جس قدر اترتا تھا نبی کریم ﷺ اس کی کتابت کروادیاکرتے تھے۔البتد ابتداء احادیث کے لکھنے کی عام اجازت نہ تھی۔سوائے چند ایک صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کےزیادہ وثائق جو آپ نے بالخصوص لکھوائے۔