Book - حدیث 2486

كِتَابُ الْجِهَادِ بَابٌ فِي النَّهْيِ عَنْ السِّيَاحَةِ حسن حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ التَّنُوخِيُّ أَبُو الْجَمَاهِرِ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنِي الْعَلَاءُ بْنُ الْحَارِثِ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! ائْذَنْ لِي فِي السِّيَاحَةِ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >إِنَّ سِيَاحَةَ أُمَّتِي، الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى<.

ترجمہ Book - حدیث 2486

کتاب: جہاد کے مسائل باب: سیاحت ممنوع ہے سیدنا ابوامامہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا اور اجازت مانگی کہ مجھے سیاحت کی اجازت مرحمت فرمائیں ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” بلاشبہ میری امت کی سیاحت جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔ “
تشریح : 1۔سیروسیاحت کی عام عرفی مفہوم میں شریعت کے اندر کوئی حیثیت نہیں جیسے کے خوش حال بے فکرے لوگ کسی اہم مقصد کے بغیر ہی ملک ملک گھومتے پھرتے ہیں۔اس میں بالمعوم مال کا اسراف ہے۔اور وقت کا ضاع بھی ۔شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی۔جبکہ مسلمان کی پوری زندگی با مقصد اعمال میں بسر ہوتی ہے۔اسلام میں اس کا نعم البدل جہاد ہے۔اور قرآن مجید میں جوکئی مقامات (سِيرُوا فِي الْأَرْضِ) کا حکم ہے۔وہ علم اور تدبر فی الانفس۔والا فاق کی غرض سے ہے۔اس نیت سے سیاحت میں کوئی حرج نہیں۔اور جہاد کی سیاحت ان سب اغراض کی جامع ہے۔2۔صوفیاء کی سیاحت کا شریعت میں کوئی جواز نہیں سوائے اس کے کہ تعلیم وتعلم کی غرض سے ہو۔ 1۔سیروسیاحت کی عام عرفی مفہوم میں شریعت کے اندر کوئی حیثیت نہیں جیسے کے خوش حال بے فکرے لوگ کسی اہم مقصد کے بغیر ہی ملک ملک گھومتے پھرتے ہیں۔اس میں بالمعوم مال کا اسراف ہے۔اور وقت کا ضاع بھی ۔شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی۔جبکہ مسلمان کی پوری زندگی با مقصد اعمال میں بسر ہوتی ہے۔اسلام میں اس کا نعم البدل جہاد ہے۔اور قرآن مجید میں جوکئی مقامات (سِيرُوا فِي الْأَرْضِ) کا حکم ہے۔وہ علم اور تدبر فی الانفس۔والا فاق کی غرض سے ہے۔اس نیت سے سیاحت میں کوئی حرج نہیں۔اور جہاد کی سیاحت ان سب اغراض کی جامع ہے۔2۔صوفیاء کی سیاحت کا شریعت میں کوئی جواز نہیں سوائے اس کے کہ تعلیم وتعلم کی غرض سے ہو۔