Book - حدیث 2464

كِتَابُ الصَّیامِ بَابُ الِاعْتِكَافِ صحیح حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَيَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ, صَلَّى الْفَجْرَ، ثُمَّ دَخَلَ مُعْتَكَفَهُ، قَالَتْ: وَإِنَّهُ أَرَادَ مَرَّةً أَنْ يَعْتَكِفَ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، قَالَتْ: فَأَمَرَ بِبِنَائِهِ فَضُرِبَ، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ أَمَرْتُ, بِبِنَائِي فَضُرِبَ، قَالَتْ: وَأَمَرَ غَيْرِي مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبِنَائِهِ فَضُرِبَ، فَلَمَّا صَلَّى الْفَجْرَ نَظَرَ إِلَى الْأَبْنِيَةِ، فَقَالَ: >مَا هَذِهِ؟ آلْبِرَّ تُرِدْنَ؟، قَالَتْ: فَأَمَرَ بِبِنَائِهِ فَقُوِّضَ، وَأَمَرَ أَزْوَاجُهُ بِأَبْنِيَتِهِنَّ فَقُوِّضَتْ، ثُمَّ أَخَّرَ الِاعْتِكَافَ إِلَى الْعَشْرِ الْأُوَلِ. –يَعْنِي: مِنْ شَوَّالٍ-. قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ ابْنُ إِسْحَاقَ وَالْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ نَحْوَهُ وَرَوَاهُ مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ, قَالَ: اعْتَكَفَ عِشْرِينَ مِنْ شَوَّالٍ.

ترجمہ Book - حدیث 2464

کتاب: روزوں کے احکام و مسائل باب: اعتکاف کے احکام ومسائل ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا سے منقول ہے کہ رسول اﷲ ﷺ جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو فجر کی نماز پڑھ کر اپنے حجرہ اعتکاف میں داخل ہو جاتے ۔ ایک بار آپ ﷺ نے رمضان کے آخری دہے میں اعتکاف کا ارادہ فرمایا اور حجرہ بنانے کا حکم دیا تو وہ بنا دیا گیا جب میں نے یہ دیکھا تو میں نے کہہ دیا کہ میرا خیمہ بھی لگا دیا جائے ۔ چنانچہ وہ لگا دیا گیا اور پھر دیگر ازواج نبی کریم ﷺ نے بھی ( دیکھا دیکھی ) خیمے لگانے کو کہا ۔ چنانچہ وہ لگا دیے گئے ۔ آپ ﷺ نے نماز فجر کے بعد خیموں کو دیکھا تو فرمایا ” یہ کیا ہے ‘ بھلا یہ نیکی کا قصد کر رہی ہیں ؟ “ چنانچہ آپ ﷺ نے اپنے حجرے کے متعلق فرمایا اور اس کھول دیا گیا ‘ اس پر ازواج محترمات نے بھی اپنے اپنے خیمے کھلوا لیے ۔ پھر آپ ﷺ نے اپنا یہ اعتکاف شوال کے پہلے عشرہ تک مؤخر فر دیا ۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا : اس حدیث کو ابن اسحاق اور اوزاعی نے یحییٰ بن سعید سے اسی طرح روایت کیا ہے جب کہ امام مالک ؓ نے یحییٰ بن سعید سے روایت کیا تو کہا : آپ ﷺ نے شوال کے بیس دن اعتکاف کیا ۔
تشریح : (1) اعتکاف کے لیے حجرہ بنانا اس لیے مستحب ہے کہ معتکف اس جگہ میں دیگر لوگوں سے علیحدہ ہو کر نوافل، تلاوت قرآن کریم اور اذکار وغیرہ میں مشغول رہے۔ یہ لوگوں کے ساتھ بلا ضرورت اختلاط کرے، نہ دوسرے ہی اس کو مشغول کریں۔ (2) خواتین کو بھی مساجد میں اعتکاف کرنا چاہیے۔ گھروں میں اعتکاف کرنا خیرالقرون سے ثابت نہیں۔گھر میں مقام عبادت کو اصطلاحا مسجد نہیں کہا جا سکتا اور نہ اس پر معروف مسجد والے احکام ہی منطبق ہوتے ہیں۔ (3) اعمال میں خیر میں بنیادی طور پر اخلاص اور اللہ تعالیٰ ہی کی رضا مقصود ہونی چاہیے۔ ازواج مطہرات کے مذکورہ بالا عمل میں رشک کا پہلو غالب تھا جو اگرچہ عام افراد امت کے لیے تو محمود ہے مگر ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ان سے بالا تر ہے۔اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا اور یہی معنی ہین اس معروف قول کے کہ (حسنات الابرار سيئات المقربين) یعنی عام صالحین کے عام صالح اعمال بعض اوقات مقرب لوگوں کے حق میں ریب اور تقصیر شمار کیے جاتے ہیں۔ (4) شوہر اگر راضی نہ ہو تو عورت کو اپنا اعتکاف ختم کر دینا چاہیے۔ (5) فوت شدہ یا توڑے گئے اعتکاف کی قضا دینا مستحب ہے، واجب نہیں۔ جیسے کہ ازواج مطہرات کے متعلق اس قسم کا کوئی بیان نہیں ہے کہ ان سے اس اعتکاف کی قضا کروائی گئی۔ (6) غیر رمضان میں اعتکاف کے دوران میں روزہ شرط نہیں ہے۔ (7) اعتکاف کا آغاز کب سے کرنا ہے؟ احادیث میں اس کی صراحت نہیں ہے۔ اس حدیث میں صرف یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھ کر حجرہ اعتکاف میں داخل ہوتے۔ دوسری روایات میں ہے کہ آپ رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف فرماتے تھے۔ اس اعتبار سے اکثر علماء یہ کہتے ہین کہ معتکف 20 رمضان کو مغرب سے پہلے پہلے مسجد میں آ جائے، رات مسجد میں گزارے اور فجر کی نماز پڑھ کر حجرہ اعتکاف میں داخل ہو جائے۔ اس طرح کرنے سے اس کا رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف کے ساتھ گزرے گا اور مذکورہ دونوں رواتیوں پر عمل ہو جائے گا۔ اس کے برعکس بعض لوگ کہتے ہیں کہ بیسیوں رمضان کو فجر کی نماز کے بعد اعتکاف کا آغاذ کیا جائے، کیونکہ حدیث میں آپ کے نمازِ فجر کے بعد حجرہ اعتکاف میں داخل ہونے کی صراحت ہے۔ لیکن اس طرح 30 رمضان ہونے کی صورت میں اعتکاف کے 11 دن بن جاتے ہیں جسے عشرہ قرار نہیں دیا جا سکتا، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل عشرہ اخیر کا اعتکاف کا منقول ہے اس لیے پہلے رائے ہی راجح اور صحیح ہے۔ واللہ اعلم. (1) اعتکاف کے لیے حجرہ بنانا اس لیے مستحب ہے کہ معتکف اس جگہ میں دیگر لوگوں سے علیحدہ ہو کر نوافل، تلاوت قرآن کریم اور اذکار وغیرہ میں مشغول رہے۔ یہ لوگوں کے ساتھ بلا ضرورت اختلاط کرے، نہ دوسرے ہی اس کو مشغول کریں۔ (2) خواتین کو بھی مساجد میں اعتکاف کرنا چاہیے۔ گھروں میں اعتکاف کرنا خیرالقرون سے ثابت نہیں۔گھر میں مقام عبادت کو اصطلاحا مسجد نہیں کہا جا سکتا اور نہ اس پر معروف مسجد والے احکام ہی منطبق ہوتے ہیں۔ (3) اعمال میں خیر میں بنیادی طور پر اخلاص اور اللہ تعالیٰ ہی کی رضا مقصود ہونی چاہیے۔ ازواج مطہرات کے مذکورہ بالا عمل میں رشک کا پہلو غالب تھا جو اگرچہ عام افراد امت کے لیے تو محمود ہے مگر ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ان سے بالا تر ہے۔اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا اور یہی معنی ہین اس معروف قول کے کہ (حسنات الابرار سيئات المقربين) یعنی عام صالحین کے عام صالح اعمال بعض اوقات مقرب لوگوں کے حق میں ریب اور تقصیر شمار کیے جاتے ہیں۔ (4) شوہر اگر راضی نہ ہو تو عورت کو اپنا اعتکاف ختم کر دینا چاہیے۔ (5) فوت شدہ یا توڑے گئے اعتکاف کی قضا دینا مستحب ہے، واجب نہیں۔ جیسے کہ ازواج مطہرات کے متعلق اس قسم کا کوئی بیان نہیں ہے کہ ان سے اس اعتکاف کی قضا کروائی گئی۔ (6) غیر رمضان میں اعتکاف کے دوران میں روزہ شرط نہیں ہے۔ (7) اعتکاف کا آغاز کب سے کرنا ہے؟ احادیث میں اس کی صراحت نہیں ہے۔ اس حدیث میں صرف یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھ کر حجرہ اعتکاف میں داخل ہوتے۔ دوسری روایات میں ہے کہ آپ رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف فرماتے تھے۔ اس اعتبار سے اکثر علماء یہ کہتے ہین کہ معتکف 20 رمضان کو مغرب سے پہلے پہلے مسجد میں آ جائے، رات مسجد میں گزارے اور فجر کی نماز پڑھ کر حجرہ اعتکاف میں داخل ہو جائے۔ اس طرح کرنے سے اس کا رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف کے ساتھ گزرے گا اور مذکورہ دونوں رواتیوں پر عمل ہو جائے گا۔ اس کے برعکس بعض لوگ کہتے ہیں کہ بیسیوں رمضان کو فجر کی نماز کے بعد اعتکاف کا آغاذ کیا جائے، کیونکہ حدیث میں آپ کے نمازِ فجر کے بعد حجرہ اعتکاف میں داخل ہونے کی صراحت ہے۔ لیکن اس طرح 30 رمضان ہونے کی صورت میں اعتکاف کے 11 دن بن جاتے ہیں جسے عشرہ قرار نہیں دیا جا سکتا، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل عشرہ اخیر کا اعتکاف کا منقول ہے اس لیے پہلے رائے ہی راجح اور صحیح ہے۔ واللہ اعلم.