Book - حدیث 2462

كِتَابُ الصَّیامِ بَابُ الِاعْتِكَافِ صحیح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ، حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ، ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ.

ترجمہ Book - حدیث 2462

کتاب: روزوں کے احکام و مسائل باب: اعتکاف کے احکام ومسائل ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ رمضان مبارک کے آخری دہے میں اعتکاف کیا کرتے ہیں ‘ آخر حیات تک آپ کا یہ معمول رہا ‘ آپ کے بعد پھر آپ کی ازواج مطہرات بھی اعتکاف بیٹھا کرتی تھیں ۔
تشریح : (1) اعتکاف کے لغوی معنی ہیں: کسی چیز کے ساتھ پابند ہو جانا یا کہیں بند رہنا۔ اور شرعی اصطلاح میں: رب ذوالجلال کی عبادت کے لیے انسان کا اپنے آپ کو کسی مسجد میں پابند کر لینا، اعتکاف کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے اس کا مشروع ، مسنون اور مستحب ہونا ثابت ہے۔ قرآن مجید میں بھی اس کا ذکر آیا ہے: (وَعَهِدْنَآ إِلَىٰٓ إِبْرَ‌ٰ‌هِـۧمَ وَإِسْمَـٰعِيلَ أَن طَهِّرَ‌ا بَيْتِىَ لِلطَّآئِفِينَ وَٱلْعَـٰكِفِينَ وَٱلرُّ‌كَّعِ ٱلسُّجُودِ) (البقرة: 125) ہم نے ابراہیم اور اسماعیل علیھم السلام کو حکم دیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔ دوسری آیت میں فرمایا: (وَلَا تُبَـٰشِرُ‌وهُنَّ وَأَنتُمْ عَـٰكِفُونَ فِى ٱلْمَسَـٰجِدِ) (البقرہ:187) اور جب تک تم مساجد میں اعتکاف کیے ہوئے ہو، عورتوں سے ملاپ نہ کرو۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بستی والوں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور اعتکاف بیٹھے، یہ محض وہم ہے۔ اس کی کوئی شرعی اصلیت نہیں ہے۔ جب تک کوئی اپنے اوپر لازم نہ کرلے، یہ واجب نہیں ہوتا۔ (2) خواتین بھی اعتکاف کر سکتی ہین بشرطیکہ شوہر اجازت دے۔ اور عورت کے لیے بھی اعتکاف کی جگہ مسجد ہی ہے، نہ کہ گھر۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ عورتوں کے لیے مسجد میں پردے اور حفاظت کا خاطر خواہ انتطام ہو۔ جس مسجد میں ایسا انتظام نہ ہو، وہاں عورتوں کا اعتکاف بیٹھنا بھی صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح گھروں میں اعتکاف بیٹھنا بھی غیر صحیح ہے۔ (1) اعتکاف کے لغوی معنی ہیں: کسی چیز کے ساتھ پابند ہو جانا یا کہیں بند رہنا۔ اور شرعی اصطلاح میں: رب ذوالجلال کی عبادت کے لیے انسان کا اپنے آپ کو کسی مسجد میں پابند کر لینا، اعتکاف کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے اس کا مشروع ، مسنون اور مستحب ہونا ثابت ہے۔ قرآن مجید میں بھی اس کا ذکر آیا ہے: (وَعَهِدْنَآ إِلَىٰٓ إِبْرَ‌ٰ‌هِـۧمَ وَإِسْمَـٰعِيلَ أَن طَهِّرَ‌ا بَيْتِىَ لِلطَّآئِفِينَ وَٱلْعَـٰكِفِينَ وَٱلرُّ‌كَّعِ ٱلسُّجُودِ) (البقرة: 125) ہم نے ابراہیم اور اسماعیل علیھم السلام کو حکم دیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔ دوسری آیت میں فرمایا: (وَلَا تُبَـٰشِرُ‌وهُنَّ وَأَنتُمْ عَـٰكِفُونَ فِى ٱلْمَسَـٰجِدِ) (البقرہ:187) اور جب تک تم مساجد میں اعتکاف کیے ہوئے ہو، عورتوں سے ملاپ نہ کرو۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بستی والوں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور اعتکاف بیٹھے، یہ محض وہم ہے۔ اس کی کوئی شرعی اصلیت نہیں ہے۔ جب تک کوئی اپنے اوپر لازم نہ کرلے، یہ واجب نہیں ہوتا۔ (2) خواتین بھی اعتکاف کر سکتی ہین بشرطیکہ شوہر اجازت دے۔ اور عورت کے لیے بھی اعتکاف کی جگہ مسجد ہی ہے، نہ کہ گھر۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ عورتوں کے لیے مسجد میں پردے اور حفاظت کا خاطر خواہ انتطام ہو۔ جس مسجد میں ایسا انتظام نہ ہو، وہاں عورتوں کا اعتکاف بیٹھنا بھی صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح گھروں میں اعتکاف بیٹھنا بھی غیر صحیح ہے۔