Book - حدیث 2421

كِتَابُ الصَّیامِ بَابُ النَّهْيِ أَنْ يُخَصَّ يَوْمُ السَّبْتِ بِصَوْمٍ صحیح حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ ح، وحَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ قُبَيْسٍ مِنْ أَهْلِ جَبَلَةَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ جَمِيعًا، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ السُّلَمِيِّ، عَنْ أُخْتِهِ وَقَالَ يَزِيدُ الصَّمَّاءِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تَصُومُوا يَوْمَ السَّبْتِ, إِلَّا فِي مَا افْتُرِضَ عَلَيْكُمْ، وَإِنْ لَمْ يَجِدْ أَحَدُكُمْ إِلَّا لِحَاءَ عِنَبَةٍ، أَوْ عُودَ شَجَرَةٍ, فَلْيَمْضَغْهُ. قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا حَدِيثٌ مَنْسُوخٌ.

ترجمہ Book - حدیث 2421

کتاب: روزوں کے احکام و مسائل باب: ہفتے کے دن کو بطور خاص روزہ رکھنا منع ہے جناب عبداللہ بن بسر سلمی کی ہمشیرہ صماء ؓا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” ہفتے کے دن کا روزہ نہ رکھو ‘ سوائے ان ایام کے جن میں تم پر یہ فرض ہوں ۔ ہفتے کے دن اگر تمہیں انگور کی شاخ کا چھلکا میسر آئے یا کسی درخت کی لکڑی تو اسے ہی چبا لو ۔ “ ( اپنے آپ کو بے روزہ بنا لو ۔ ) امام ابوداؤد ؓ نے کہا : یہ حدیث منسوخ ہے ۔ امام ابوداؤد ؓ نے کہا : عبداللہ بن بسر ‘ حمصی ہیں اور یہ حدیث منسوخ ہے ۔ اس کو سیدہ جویریہ کی حدیث نے ( جو آگے آ رہی ہے ) منسوخ کر دیا ہے ۔
تشریح : ہفتے کا دن یہودیوں کی عبادت کا دن ہے اور ہمیں ان کی مخالفت کا حکم ہے، لہذا آگے پیچھے کے دن ساتھ مل جائیں یا ملا لیے جائں تو کوئی حرج نہیں، مثلا ایام بیض، ایام عاشورا وغیرہ لیکن اگر قضا یا نذر کا روزہ ہو یا یوم عرفہ ہفتے کا دن میں پڑ رہا ہو یا کوئی صوم داود کا عامل ہو تو ہفتے کے دن کا روزہ مباح ہو گا۔ کیونکہ یہ تخصیص نہیں۔ امام ابوداود کا اس حدیث کو منسوخ کہنے سے مراد، بقول علامہ البانی رحمة اللہ علیہ، شاید ابن حبان اور حاکم کی یہ روایت ہو جناب کریب مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ کو حضرت ابن عباس اور چند دیگر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا کہ ان سے پوچھ کر آؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ تر کن دنوں میں روزے رکھتے تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہفتے اور اتوار کو۔ میں یہ جواب لے کر ان حضرات کی خدمت میں پہنچا اور انہیں بتایا تو انہوں نے اس پر (تعجب آمیز) انکار کیا۔ اور پھر وہ سبھی ام المومنین کی خدمت میں چلے گئے اور ان سے کہا: ہم نے آپ سے یہ یہ پچھوایا تھا اور آپ نے یوں یوں جواب دیا ہے تو انہوں نے کہا کہ اس نے سچ کہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہفتے اور اتوار کے دنوں میں اکثر روزہ رکھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ مشرکین کے عید کے دن ہیں اور میں ان کی مخالفت کرنا چاہتا ہوں۔ امام حاکم نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے اور ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے مگر علامہ عبدالحق الاشبیلی رحمة اللہ علیہ نے الاحکام الوسطیٰ میں اس کی سند کو ضعیف کہا ہے اور علامہ البانی رحمة اللہ علیہ نے ابھی اسے ہی ترجیح دی ہے۔ (ارواء الغلیل، حدیث:960) الغرض حدیث صحیح اور محکم ہے منسوخ نہیں اور عنوان باب ہی سےسب اشکالات ختم ہو جاتے ہیں، یعنی اس دن کو خاص کرنا جائز نہیں، جمعے یا اتوار کا دن ساتھ ملا لینا ضروری ہے۔ ہفتے کا دن یہودیوں کی عبادت کا دن ہے اور ہمیں ان کی مخالفت کا حکم ہے، لہذا آگے پیچھے کے دن ساتھ مل جائیں یا ملا لیے جائں تو کوئی حرج نہیں، مثلا ایام بیض، ایام عاشورا وغیرہ لیکن اگر قضا یا نذر کا روزہ ہو یا یوم عرفہ ہفتے کا دن میں پڑ رہا ہو یا کوئی صوم داود کا عامل ہو تو ہفتے کے دن کا روزہ مباح ہو گا۔ کیونکہ یہ تخصیص نہیں۔ امام ابوداود کا اس حدیث کو منسوخ کہنے سے مراد، بقول علامہ البانی رحمة اللہ علیہ، شاید ابن حبان اور حاکم کی یہ روایت ہو جناب کریب مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ کو حضرت ابن عباس اور چند دیگر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا کہ ان سے پوچھ کر آؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ تر کن دنوں میں روزے رکھتے تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہفتے اور اتوار کو۔ میں یہ جواب لے کر ان حضرات کی خدمت میں پہنچا اور انہیں بتایا تو انہوں نے اس پر (تعجب آمیز) انکار کیا۔ اور پھر وہ سبھی ام المومنین کی خدمت میں چلے گئے اور ان سے کہا: ہم نے آپ سے یہ یہ پچھوایا تھا اور آپ نے یوں یوں جواب دیا ہے تو انہوں نے کہا کہ اس نے سچ کہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہفتے اور اتوار کے دنوں میں اکثر روزہ رکھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ مشرکین کے عید کے دن ہیں اور میں ان کی مخالفت کرنا چاہتا ہوں۔ امام حاکم نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے اور ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے مگر علامہ عبدالحق الاشبیلی رحمة اللہ علیہ نے الاحکام الوسطیٰ میں اس کی سند کو ضعیف کہا ہے اور علامہ البانی رحمة اللہ علیہ نے ابھی اسے ہی ترجیح دی ہے۔ (ارواء الغلیل، حدیث:960) الغرض حدیث صحیح اور محکم ہے منسوخ نہیں اور عنوان باب ہی سےسب اشکالات ختم ہو جاتے ہیں، یعنی اس دن کو خاص کرنا جائز نہیں، جمعے یا اتوار کا دن ساتھ ملا لینا ضروری ہے۔