Book - حدیث 2402

كِتَابُ الصَّیامِ بَابُ الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ صحیح حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَمُسَدَّدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ حَمْزَةَ الْأَسْلَمِيَّ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي رَجُلٌ أَسْرُدُ الصَّوْمَ، أَفَأَصُومُ فِي السَّفَرِ؟ قَالَ: صُمْ إِنْ شِئْتَ، وَأَفْطِرْ إِنْ شِئْتَ.

ترجمہ Book - حدیث 2402

کتاب: روزوں کے احکام و مسائل باب: سفر میں روزہ رکھنے کے احکام و مسائل ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا سے مروی ہے کہ سیدنا حمزہ اسلمی ؓ نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا : اے اللہ کے رسول ! میں تسلسل سے روزے رکھا کرتا ہوں ، تو کیا سفر میں روزہ رکھا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” چاہو تو رکھ لو اور اگر چاہو تو افطار کر لو ۔ “
تشریح : جس سفر میں نماز قصر کرنا جائز ہے۔ اس میں مسافر کے لیے روزہ چھوڑنا بھی جائز ہے، خواہ سفر پیدل ہو یا سواری پر، اور سواری خواہ گاڑی ہو یا ہوائی جہاز وغیرہ، اور خواہ تھکاوٹ لاحق ہوتی ہو جس میں روزہ مشکل ہو یا تھکاوٹ لاحق نہ ہوتی ہو، خواہ سفر میں بھوک پیاس لگتی ہو یا نہ لگتی ہو۔ کیونکہ شریعت نے اس سفر میں نماز قصر کرنے اور روزہ چھوڑنے کی مطلقا اجازت دی ہے اور اس میں سواری کی نوعیت یا تھکاوٹ اور بھوک پیاس وغیرہ کی کوئی قید نہیں لگائی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے رمضان میں جہاد کے سلسلہ میں آپ کے ساتھ سفر کیا تو بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے روزہ نہیں رکھا تھا۔اوراس کے بارے میں کسی نے بھی دوسرے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا، البتہ اگر گرمی کی شدت، راستہ کی دشواری، دوری اور مسلسل سفر کی وجہ سے روزہ میں تکلیف ہو تو پھر مسافر کے لیے تاکید کے ساتھ حکم یہ ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ہم میں سے بعض لوگوں نے روزہ رکھا اور بعض نے روزہ نہیں رکھا، روزہ نہ رکھنے والے ہشاش بشاش تھے اور انہوں نے کام کیا جب کہ روزہ رکھنے والے کمزوور ہو گئے تھے اور وہ بعض کام نہ کر سکے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج تو روزہ نہ رکھنے والوں نے اجروثواب حاصل کر لیا۔ (صحيح البخاري‘ الجهاد‘ حديث: 2890‘ وصحيح مسلم‘ الصيام‘ حديث:119) کبھی کسی ہنگامی حالت کی وجہ سے یہ واجب بھی ہو جاتا ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف سفر کیا اور جب ایک جگہ پڑاؤ ڈالا تو آپ نے فرمایا: تم اپنے دشمن کے بہت قریب ہو گئے ہو اور روزہ چھوڑ دینا تمہارے لیے باعث تقویت ہو گا ۔ یہ ایک رخصت تھی اس لیے ہم میں سے کچھ لوگوں نے روزہ رکھا اور کچھ نے نہ رکھا، پھر ہم نے جب ایک دوسری منزل پر پڑاؤ ڈالا تو آپ نے فرمایا: تمہاری دشمن سے مڈبھیڑ ہونے والی ہے، روزہ نہ رکھنا تمہارے لیے باعث تقویت ہو گا۔ لہذا چھوڑ دو۔ (صحيح مسلم‘ الصيام‘ حديث:1120) چونکہ آپ کی طرف سے یہ ایک تاکیدی حکم تھا اس لیے ہم سب نے روزہ چھوڑ دیا، راوی حدیث کا بیان ہے کہ اس کے بعد ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں روزے رکھے بھی تھے۔ اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں ایک آدمی کو دیکھا جس پر لوگ جمع ہوئے تھے اور اس پر سایہ کیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا، کیا ماجرا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ایک روزے دار ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ تم سفر میں روزہ رکھو۔ (صحيح مسلم‘ الصيام‘ حديث: 1115) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی عطا کردہ رخصتوں کو قبول کر لیا جائے جس طرح وہ اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اس کی معصیت و نافرمانی کا ارتکاب کیا جائے۔ (مسند احمد:3/108) اگر روزہ رکھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو اور کوئی روزہ رکھ لے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر تکلیف ہو تو پھر روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ جس سفر میں نماز قصر کرنا جائز ہے۔ اس میں مسافر کے لیے روزہ چھوڑنا بھی جائز ہے، خواہ سفر پیدل ہو یا سواری پر، اور سواری خواہ گاڑی ہو یا ہوائی جہاز وغیرہ، اور خواہ تھکاوٹ لاحق ہوتی ہو جس میں روزہ مشکل ہو یا تھکاوٹ لاحق نہ ہوتی ہو، خواہ سفر میں بھوک پیاس لگتی ہو یا نہ لگتی ہو۔ کیونکہ شریعت نے اس سفر میں نماز قصر کرنے اور روزہ چھوڑنے کی مطلقا اجازت دی ہے اور اس میں سواری کی نوعیت یا تھکاوٹ اور بھوک پیاس وغیرہ کی کوئی قید نہیں لگائی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے رمضان میں جہاد کے سلسلہ میں آپ کے ساتھ سفر کیا تو بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے روزہ نہیں رکھا تھا۔اوراس کے بارے میں کسی نے بھی دوسرے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا، البتہ اگر گرمی کی شدت، راستہ کی دشواری، دوری اور مسلسل سفر کی وجہ سے روزہ میں تکلیف ہو تو پھر مسافر کے لیے تاکید کے ساتھ حکم یہ ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ہم میں سے بعض لوگوں نے روزہ رکھا اور بعض نے روزہ نہیں رکھا، روزہ نہ رکھنے والے ہشاش بشاش تھے اور انہوں نے کام کیا جب کہ روزہ رکھنے والے کمزوور ہو گئے تھے اور وہ بعض کام نہ کر سکے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج تو روزہ نہ رکھنے والوں نے اجروثواب حاصل کر لیا۔ (صحيح البخاري‘ الجهاد‘ حديث: 2890‘ وصحيح مسلم‘ الصيام‘ حديث:119) کبھی کسی ہنگامی حالت کی وجہ سے یہ واجب بھی ہو جاتا ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف سفر کیا اور جب ایک جگہ پڑاؤ ڈالا تو آپ نے فرمایا: تم اپنے دشمن کے بہت قریب ہو گئے ہو اور روزہ چھوڑ دینا تمہارے لیے باعث تقویت ہو گا ۔ یہ ایک رخصت تھی اس لیے ہم میں سے کچھ لوگوں نے روزہ رکھا اور کچھ نے نہ رکھا، پھر ہم نے جب ایک دوسری منزل پر پڑاؤ ڈالا تو آپ نے فرمایا: تمہاری دشمن سے مڈبھیڑ ہونے والی ہے، روزہ نہ رکھنا تمہارے لیے باعث تقویت ہو گا۔ لہذا چھوڑ دو۔ (صحيح مسلم‘ الصيام‘ حديث:1120) چونکہ آپ کی طرف سے یہ ایک تاکیدی حکم تھا اس لیے ہم سب نے روزہ چھوڑ دیا، راوی حدیث کا بیان ہے کہ اس کے بعد ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں روزے رکھے بھی تھے۔ اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں ایک آدمی کو دیکھا جس پر لوگ جمع ہوئے تھے اور اس پر سایہ کیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا، کیا ماجرا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ایک روزے دار ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ تم سفر میں روزہ رکھو۔ (صحيح مسلم‘ الصيام‘ حديث: 1115) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی عطا کردہ رخصتوں کو قبول کر لیا جائے جس طرح وہ اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اس کی معصیت و نافرمانی کا ارتکاب کیا جائے۔ (مسند احمد:3/108) اگر روزہ رکھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو اور کوئی روزہ رکھ لے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر تکلیف ہو تو پھر روزہ رکھنا مکروہ ہے۔