Book - حدیث 2401

كِتَابُ الصَّیامِ بَابٌ فِيمَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: إِذَا مَرِضَ الرَّجُلُ فِي رَمَضَانَ، ثُمَّ مَاتَ وَلَمْ يَصُمْ, أُطْعِمَ عَنْهُ، وَلَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ قَضَاءٌ، وَإِنْ كَانَ عَلَيْهِ نَذْرٌ, قَضَى عَنْهُ وَلِيُّهُ .

ترجمہ Book - حدیث 2401

کتاب: روزوں کے احکام و مسائل باب: جو کوئی فوت ہو جائے اور اس کے ذمے روزے باقی ہوں سیدنا ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ جب کوئی شخص رمضان میں بیمار ہوا اور پھر فوت ہو گیا اور روزے نہ رکھ سکا ہو تو اس کی طرف سے کھانا کھلا دیا جائے ، اس پر قضاء نہیں ہے ۔ اگر اس نے نذر مانی تھی تو اس کا ولی قضاء دے ۔
تشریح : (1) عام اصحاب الحدیث اس بات کے قائل ہیں کہ میت پر روزے باقی ہوں تو اس کا ولی روزے رکھے۔ (2) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور بعض دیگر حجرات کا کہنا ہے کہ فرائض میں کوئی کسی کا نائب نہیں ہو سکتا۔ مریض نے اگر عمدا تقصیر نہیں کی اور وہ فوت ہو فیا تو ولی پر کچھ لازم نہیں صرف کھانا کھلا دے۔ لیکن نذر کا معاملہ اس لیے سخت ہے کہ اسے انسان نے از خود اپنے اوپر لازم کیا ہوتا ہے، اسی وجہ سے اسے اللہ کے قرض سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ (1) عام اصحاب الحدیث اس بات کے قائل ہیں کہ میت پر روزے باقی ہوں تو اس کا ولی روزے رکھے۔ (2) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور بعض دیگر حجرات کا کہنا ہے کہ فرائض میں کوئی کسی کا نائب نہیں ہو سکتا۔ مریض نے اگر عمدا تقصیر نہیں کی اور وہ فوت ہو فیا تو ولی پر کچھ لازم نہیں صرف کھانا کھلا دے۔ لیکن نذر کا معاملہ اس لیے سخت ہے کہ اسے انسان نے از خود اپنے اوپر لازم کیا ہوتا ہے، اسی وجہ سے اسے اللہ کے قرض سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔