Book - حدیث 2389

كِتَابُ الصَّیامِ بَابُ فِيمَنْ أَصْبَحَ جُنُبًا فِي شَهْرِ رَمَضَانَ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ يَعْنِي الْقَعْنَبِيَّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَى عَائِشَةَ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -وَهُوَ وَاقِفٌ عَلَى الْبَابِ-: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي أُصْبِحُ جُنُبًا وَأَنَا أُرِيدُ الصِّيَامَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >وَأَنَا أُصْبِحُ جُنُبًا وَأَنَا أُرِيدُ الصِّيَامَ، فَأَغْتَسِلُ وَأَصُومُ<، فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّكَ لَسْتَ مِثْلَنَا، قَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَخْشَاكُمْ لِلَّهِ، وَأَعْلَمَكُمْ بِمَا أَتَّبِعُ.

ترجمہ Book - حدیث 2389

کتاب: روزوں کے احکام و مسائل باب: جو کوئی رمضان میں صبح کو جنبی ہو کر اٹھے ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا جبکہ آپ ﷺ دروازے پر کھڑے تھے : اے اللہ کے رسول ! میں بحالت جنابت صبح کرتا ہوں اور روزہ بھی رکھنا چاہتا ہوں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” میں بھی ( بعض اوقات ) صبح کو جنابت کی حالت میں اٹھتا ہوں اور روزے کا ارادہ ہوتا ہے تو غسل کر لیتا ہوں اور روزہ رکھتا ہوں ۔ “ وہ آدمی کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! آپ تو ہماری مانند نہیں ہیں ۔ اللہ عزوجل نے آپ کی اگلی پچھلی تمام تقصیرات معاف فرمائی ہوئی ہیں ۔ اس پر آپ غضبناک ہو گئے اور فرمایا ” قسم اللہ کی ! میں یقیناً تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور اتباع کے لائق اعمال سے بہت زیادہ آگاہ ہوں ۔ “
تشریح : اللہ کی انتہائی خشیت اور اس کے دین کی معرفت کا تقاضا بھرپور عمل اور کامل احتیاط ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ احتیاط کون کر سکتا ہے؟ لہذا اعمال میں آپ ہی کی اقتدا واجب ہے۔ اور آپ ہی امت کے لیے نمونہ ہیں۔ سوائے ان امور کے جن میں آپ کا استثنا ثابت ہے۔ اللہ کی انتہائی خشیت اور اس کے دین کی معرفت کا تقاضا بھرپور عمل اور کامل احتیاط ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ احتیاط کون کر سکتا ہے؟ لہذا اعمال میں آپ ہی کی اقتدا واجب ہے۔ اور آپ ہی امت کے لیے نمونہ ہیں۔ سوائے ان امور کے جن میں آپ کا استثنا ثابت ہے۔