Book - حدیث 237

كِتَابُ الطَّهَارَةِ بَابُ فِي الْمَرْأَةِ تَرَى مَا يَرَى الرَّجُلُ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ الْأَنْصَارِيَّةَ -هِيَ أُمُّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ- قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ! أَرَأَيْتَ الْمَرْأَةَ إِذَا رَأَتْ فِي النَّوْمِ مَا يَرَى الرَّجُلُ أَتَغْتَسِلُ أَمْ لَا؟ قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، فَلْتَغْتَسِلْ, إِذَا وَجَدَتِ الْمَاءَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَأَقْبَلْتُ عَلَيْهَا، فَقُلْتُ: أُفٍّ لَكِ, وَهَلْ تَرَى ذَلِكَ الْمَرْأَةُ؟! فَأَقْبَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: تَرِبَتْ يَمِينُكِ يَا عَائِشَةُ وَمِنْ أَيْنَ يَكُونُ الشَّبَهُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَلِكَ رَوَى عُقيْلٌ وَالزُّبَيْدِيُّ وَيُونُسُ وَابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ عَنِ الزُّهْرِيِّ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْوَزِيرِ، عَنْ مَالِكٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ وَوَافَقَ الزُّهْرِيُّ مُسَافِعًا الْحَجَبِيَّ قَالَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ وَأَمَّا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ فَقَالَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ترجمہ Book - حدیث 237

کتاب: طہارت کے مسائل باب: عورت (خواب میں) وہ کچھ دیکھے جو مرد دیکھتا ہے تو...؟ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا سے مروی ہے کہ سیدہ ام سلیم انصاریہ ؓا والدہ سیدنا انس ؓ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! بلاشبہ اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتا ۔ یہ فرمائیے کہ جب عورت خواب میں وہ کچھ دیکھے جو مرد دیکھتا ہے تو کیا وہ غسل کرے یا نہیں ؟ سیدہ عائشہ ؓا نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” چاہیئے کہ غسل کرے جب وہ پانی ( نکلنے ) کا اثر محسوس کرے ۔ “ سیدہ عائشہ ؓا کہتی ہیں کہ میں اس ( ام سلیم ) کی طرف متوجہ ہوئی اور کہا : اف ! بھلا عورت بھی کوئی ایسے دیکھتی ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ” تیری دایاں ہاتھ خاک آلود ہو ( بچے میں ) مشابہت کہاں سے آتی ہے ؟ “ امام ابوداؤد ؓ نے کہا کہ زبیدی ، عقیل ، یونس اور زہری کے بھتیجے ( محمد بن عبداللہ بن مسلم ، چاروں نے ) زہری سے ، اور ایسے ہی ابن ابی الوزیر ( ابراہیم بن عمر ) نے بواسطہ مالک ، زہری سے اسی طرح روایت کیا ہے ( یعنی یہ مکالمہ سیدہ عائشہ اور ام سلیم کے مابین ہوا ہے ) نیز مسافع حجبی نے ( بھی ) زہری کی موافقت میں بواسطہ عروہ سیدہ عائشہ ؓا سے یہی روایت کیا ہے ، مگر ہشام بن عروہ بواسطہ عروہ عن زینب بنت ابی سلمہ کی سند سے مروی ہے کہ سیدہ ام سلمہ ؓا نے بیان کیا کہ ام سلیم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی تھی ۔
تشریح : امام ابوداود﷫اپنی بحث میں زہری اورہشام بن عروہ کےمابین اختلاف کاذکرکررہےہیں کہ یہ مکالمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکاہےیاحضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاکا‘توامام صاحب کےنزدیک ترجیح زہری کی روایت کوہےیعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکےمکالمےکو۔انہوں نےاسی کےشواہدذکرکیےہیں‘مگرقاضی عیاض کی تحقیق میں یہ مکالمہ حضرت ام سلمہ اورام سلیم کےمابین ہواہے۔ اس طرح ترجیح ہشام بن عروہ کی روایت کوہوگی اورامام بخاری ﷫کامیلان بھی اسی طرف ہے۔[صحیح بخاری‘حدیث:130)تاہم علامہ نووی نےکہاکہ عین ممکن ہےکہ دونوں ہی اس موقع پڑموجودہوں اوردونوں نےتعجب کااظہارکیاہو۔واللہ اعلم.(عون المعبود) 2۔ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کایہ جملہ جوانہوں نےاپنےسوال سےپہلےکہاکہ’’اللہ تعالی حق سے نہیں شرماتا‘‘ان کےکمال حسن ادب پردلیل ہے‘یعنی جوبات عرفازبان پرنہیں لائی جاتی اورمجھےاس کی شرعاًضرورت ہے‘بتائی جائے۔ 3۔ امہات المومنین کااس سوال پراظہارتعجب دلیل ہےکہ یہ ’’کمال درجےکی طیبات وطاہرات‘‘تہیں‘اس حدتک کہ انہیں خواب میں بھی کبھی برائی کاخیل نہ آیاتھا۔(من افادات الشیخ سلطان محمود﷫) امام ابوداود﷫اپنی بحث میں زہری اورہشام بن عروہ کےمابین اختلاف کاذکرکررہےہیں کہ یہ مکالمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکاہےیاحضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاکا‘توامام صاحب کےنزدیک ترجیح زہری کی روایت کوہےیعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکےمکالمےکو۔انہوں نےاسی کےشواہدذکرکیےہیں‘مگرقاضی عیاض کی تحقیق میں یہ مکالمہ حضرت ام سلمہ اورام سلیم کےمابین ہواہے۔ اس طرح ترجیح ہشام بن عروہ کی روایت کوہوگی اورامام بخاری ﷫کامیلان بھی اسی طرف ہے۔[صحیح بخاری‘حدیث:130)تاہم علامہ نووی نےکہاکہ عین ممکن ہےکہ دونوں ہی اس موقع پڑموجودہوں اوردونوں نےتعجب کااظہارکیاہو۔واللہ اعلم.(عون المعبود) 2۔ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کایہ جملہ جوانہوں نےاپنےسوال سےپہلےکہاکہ’’اللہ تعالی حق سے نہیں شرماتا‘‘ان کےکمال حسن ادب پردلیل ہے‘یعنی جوبات عرفازبان پرنہیں لائی جاتی اورمجھےاس کی شرعاًضرورت ہے‘بتائی جائے۔ 3۔ امہات المومنین کااس سوال پراظہارتعجب دلیل ہےکہ یہ ’’کمال درجےکی طیبات وطاہرات‘‘تہیں‘اس حدتک کہ انہیں خواب میں بھی کبھی برائی کاخیل نہ آیاتھا۔(من افادات الشیخ سلطان محمود﷫)