كِتَابُ الصَّیامِ بَابُ الْقَوْلِ عِنْدَ الْإِفْطَارِ حسن حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى أَبُو مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، أَخْبَرَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ سَالِمٍ الْمُقَفَّعَ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَيَقْطَعُ مَا زَادَ عَلَى الْكَفِّ، وَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ, قَالَ: >ذَهَبَ الظَّمَأُ، وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ.
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
باب: روزہ افطار کرنے کے وقت کی دعا
مروان بن سالم مقفع کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر ؓ کو دیکھا کہ وہ داڑھی کو اپنی مٹھی میں لیتے اور اس سے جو بڑھی ہوئی ہوتی اسے کاٹ ڈالتے ۔ اور بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب روزہ افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے تھے «ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله» ” پیاس بجھ گئی ‘ رگیں تر ہو گئیں اور اﷲ نے چاہا تو اجر بھی ثابت ہو گیا ۔ “
تشریح :
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے انسان کی زندگی کے تمام چھوٹے بڑے امور میں اللہ کا ذکر اور دعائیں منقول ہیں۔ ان کو اپنے عمل کا حصہ بنا لینے سے بندہ (ٱذْكُرُوا۟ ٱللَّهَ ذِكْرًۭا كَثِيرًۭا) (الاحزاب: 41) اللہ کا بہت زیادہ ذکر کیا کرو۔ کا مِصداق بن جاتا ہے، لہذا خود ساختہ دعاؤں سے بچنا چاہیے۔ روزہ افطار کرنے کی دعائیں اس باب میں آ گئی ہیں۔ قبولیت کے اس وقت میں انسان اپنی تمام طرح کی حاجات اللہ کے حضور پیش کرے تو سعادت ہے۔ (2) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قبضہ (مٹھی بھر) سے زائد داڑھی کا کاٹنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے مؤید نہیں۔ یہ ان کا اپنا ذاتی فعل ہے جو حدیث رسول کے مقابلے میں حجت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف (اعفاء اللحية) کا حکم نہیں دیا بلکہ اس کے ساتھ مخالفت مجوس کا حکم بھی دیا تھا۔ جبکہ اس وقت کے مجوسی داڑھیاں چھوٹی کراتے تھے ان میں منڈوانے کا رواج عام نہ تھا، جیسا کہ اس بات کو اکثر محدثین نے بیان کیا ہے۔ صاحب تحفة الاحوذی اس مسئلہ کی بابت لکھتے ہیں کہ بعض لوگ ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنھم کے آثار سے استدلال کرتے ہیں کہ قبضہ سے اوپر زائد داڑھی کاٹ دینی چاہیے یہ استدلال ضعیف اور کمزور ہے چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل شدہ مرفوع احادیث ان کی نفی کرتی ہیں۔ ان میں مطلق چھوڑنے کا حکم ہے۔ پس صریح اور مرفوع احادیث کے مقابلے میں ان آثار اور اقوال دے دلیل اخذ کرنا صحیح نہیں۔ پس سلامتی والا طریقہ انہی لوگوں کا ہے جو کہتے ہیں کہ ظاہر احادیث پر عمل کرتے ہوئے داڑھی کو بالکل چھوڑ دینا چاہیے اور اس کے طول و عرض سے کچھ بال لینا برا فعل ہے۔ (تحفة الاحوذی:4/11) (2) اس میں روزہ افطار کرنے کی جو دعا منقول ہے، وہ صحیح ہے۔ اس کے مقابلے میں مشہور دعا (اللهم لك صمت...) سندا ضعیف ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے انسان کی زندگی کے تمام چھوٹے بڑے امور میں اللہ کا ذکر اور دعائیں منقول ہیں۔ ان کو اپنے عمل کا حصہ بنا لینے سے بندہ (ٱذْكُرُوا۟ ٱللَّهَ ذِكْرًۭا كَثِيرًۭا) (الاحزاب: 41) اللہ کا بہت زیادہ ذکر کیا کرو۔ کا مِصداق بن جاتا ہے، لہذا خود ساختہ دعاؤں سے بچنا چاہیے۔ روزہ افطار کرنے کی دعائیں اس باب میں آ گئی ہیں۔ قبولیت کے اس وقت میں انسان اپنی تمام طرح کی حاجات اللہ کے حضور پیش کرے تو سعادت ہے۔ (2) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قبضہ (مٹھی بھر) سے زائد داڑھی کا کاٹنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے مؤید نہیں۔ یہ ان کا اپنا ذاتی فعل ہے جو حدیث رسول کے مقابلے میں حجت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف (اعفاء اللحية) کا حکم نہیں دیا بلکہ اس کے ساتھ مخالفت مجوس کا حکم بھی دیا تھا۔ جبکہ اس وقت کے مجوسی داڑھیاں چھوٹی کراتے تھے ان میں منڈوانے کا رواج عام نہ تھا، جیسا کہ اس بات کو اکثر محدثین نے بیان کیا ہے۔ صاحب تحفة الاحوذی اس مسئلہ کی بابت لکھتے ہیں کہ بعض لوگ ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنھم کے آثار سے استدلال کرتے ہیں کہ قبضہ سے اوپر زائد داڑھی کاٹ دینی چاہیے یہ استدلال ضعیف اور کمزور ہے چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل شدہ مرفوع احادیث ان کی نفی کرتی ہیں۔ ان میں مطلق چھوڑنے کا حکم ہے۔ پس صریح اور مرفوع احادیث کے مقابلے میں ان آثار اور اقوال دے دلیل اخذ کرنا صحیح نہیں۔ پس سلامتی والا طریقہ انہی لوگوں کا ہے جو کہتے ہیں کہ ظاہر احادیث پر عمل کرتے ہوئے داڑھی کو بالکل چھوڑ دینا چاہیے اور اس کے طول و عرض سے کچھ بال لینا برا فعل ہے۔ (تحفة الاحوذی:4/11) (2) اس میں روزہ افطار کرنے کی جو دعا منقول ہے، وہ صحیح ہے۔ اس کے مقابلے میں مشہور دعا (اللهم لك صمت...) سندا ضعیف ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔