كِتَابُ الصَّیامِ بَابُ وَقْتِ فِطْرِ الصَّائِمِ صحیح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الشَّيْبَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى، يَقُولُ: سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَائِمٌ، فَلَمَّا غَرَبَتِ الشَّمْسُ, قَالَ: >يَا بِلَالُ! انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا<، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ. لَوْ أَمْسَيْتَ!، قَالَ: >انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا<، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عَلَيْكَ نَهَارًا!، قَالَ: >انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا<، فَنَزَلَ، فَجَدَحَ، فَشَرِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَال:َ >إِذَا رَأَيْتُمُ اللَّيْلَ قَدْ أَقْبَلَ مِنْ هَا هُنَا, فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ<. -وَأَشَارَ بِأُصْبُعِهِ قِبَلَ الْمَشْرِقِ-.
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
باب: روزہ افطار کرنے کا وقت
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ( ایک سفر میں ) ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گئے جبکہ آپ روزے سے تھے ۔ جب سورج غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا ” اے بلال ! اترو اور ہمارے لیے ستو گھولو ۔ “ انہوں نے کہا : اے اﷲ کے رسول ! ذرا شام ہو لینے دیجئیے ۔ آپ نے فرمایا ” اترو اور ہمارے لیے ستو گھولو ۔ “ انہوں نے کہا : اے اﷲ کے رسول ! ابھی تو دن ہے ۔ آپ نے فرمایا اترو اور ہمارے لیے ستو گھولو ۔ “ چنانچہ بلال اترے ‘ ستو گھولا اور پھر آپ نے نوش کیا اور فرمایا ” جب دیکھو کہ ادھر سے رات ہو گئی ہے تو بلاشبہ روزے دار کے لیے افطار کا وقت ہو گیا ۔ “ اور آپ ﷺ نے اپنی انگلی سے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا ۔
تشریح :
(1) سورج غروب ہوتے ہی افطار کا وقت ہو جاتا ہے۔ بعد از غروب انتظار یا احتیاط کے کوئی معنی نہیں۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا تعمیل ارشاد نبوی میں تردد فضا میں سفیدی وغیرہ کی وجہ سے تھا اور وہ سمجھ رہے تھے کہ سورج شاید کسی پہاڑ وغیرہ کی اوٹ میں ہے۔ حالانکہ فی الواقع سورج غروب ہو چکا تھا جیسا کہ راوی حدیث نے بیان کیا۔ (2) اس حدیث سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ بعض اوقات ظاہر امور کی وضاحت کروالینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا، تاکہ امکانی شبہے کا ازالہ ہو جائے۔ (3) نیز صاحب علم کو یاد دلانا کوئی معیوب بات نہیں نہ یہ سوء ادبی ہے۔
(1) سورج غروب ہوتے ہی افطار کا وقت ہو جاتا ہے۔ بعد از غروب انتظار یا احتیاط کے کوئی معنی نہیں۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا تعمیل ارشاد نبوی میں تردد فضا میں سفیدی وغیرہ کی وجہ سے تھا اور وہ سمجھ رہے تھے کہ سورج شاید کسی پہاڑ وغیرہ کی اوٹ میں ہے۔ حالانکہ فی الواقع سورج غروب ہو چکا تھا جیسا کہ راوی حدیث نے بیان کیا۔ (2) اس حدیث سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ بعض اوقات ظاہر امور کی وضاحت کروالینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا، تاکہ امکانی شبہے کا ازالہ ہو جائے۔ (3) نیز صاحب علم کو یاد دلانا کوئی معیوب بات نہیں نہ یہ سوء ادبی ہے۔