كِتَابُ الصَّیامِ بَابٌ مَنْ سَمَّى السَّحُورَ الْغَدَاءَ صحیح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ النَّاقِدُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ الْخَيَّاطُ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ سَيْفٍ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي رُهْمٍ عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، قَالَ: دَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّحُورِ فِي رَمَضَانَ، فَقَالَ: هَلُمَّ إِلَى الْغَدَاءِ الْمُبَارَكِ.
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
باب: سحری کو «غداء » ( یعنی صبح کا کھانا ) کہنا جائز ہے
سیدنا عرباض بن ساریہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے رمضان میں سحری کے لیے بلایا اور فرمایا ” آؤ ! مبارک کھانا «غداء» کھا لو ۔ “
تشریح :
کھانا انسانی فطرت کا ایک لازمہ ہے مگر شریعت کی اتباع میں سحری کا کھانا مبارک کھانا ہوتا ہے۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناطق وحی ہیں، اپنی مرضی سے کچھ نہیں کہتے، اس لیے اگر کسی کی طبیعت میں سحری کے لیے چاہت نہ بھی ہو تو ایک دو لقمے یا کجھور یا کسی مشروب کے چند گھونٹ ضرور لے لینے چاہئیں تاکہ اس برکت سے حصہ مل جائے۔
کھانا انسانی فطرت کا ایک لازمہ ہے مگر شریعت کی اتباع میں سحری کا کھانا مبارک کھانا ہوتا ہے۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناطق وحی ہیں، اپنی مرضی سے کچھ نہیں کہتے، اس لیے اگر کسی کی طبیعت میں سحری کے لیے چاہت نہ بھی ہو تو ایک دو لقمے یا کجھور یا کسی مشروب کے چند گھونٹ ضرور لے لینے چاہئیں تاکہ اس برکت سے حصہ مل جائے۔