Book - حدیث 2318

كِتَابُ الصَّیامِ بَابُ مَنْ قَالَ هِيَ مُثْبَتَةٌ لِلشَّيْخِ وَالْحُبْلَى شاذ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ}[البقرة: 184], قَالَ: كَانَتْ رُخْصَةً لِلشَّيْخِ الْكَبِيرِ، وَالْمَرْأَةِ الْكَبِيرَةِ، وَهُمَا يُطِيقَانِ الصِّيَامَ, أَنْ يُفْطِرَا وَيُطْعِمَا مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا, وَالْحُبْلَى وَالْمُرْضِعُ إِذَا خَافَتَا. قَالَ أبو دَاود: يَعْنِي عَلَى أَوْلَادِهِمَا, أَفْطَرَتَا وَأَطْعَمَتَا.

ترجمہ Book - حدیث 2318

کتاب: روزوں کے احکام و مسائل باب: مذکورہ بالا آیت بڑے بوڑھے اور حاملہ کے حق میں ثابت ہے سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ آیت کریمہ «وعلى الذين يطيقونه فدية طعام مسكين» کی تفسیر میں انہوں نے کہا کہ بڑی عمر کے بوڑھے مرد اور عورت کے لیے رخصت ہے کہ باوجود روزے کی طاقت کے افطار کر سکتے ہیں ۔ وہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں ۔ اسی طرح حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کو جب اندیشہ ہو ۔ ( تو وہ بھی افطار کر سکتی ہیں ۔ ) امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں : مقصد یہ ہے کہ جب انہیں اپنے بچے کے بارے میں ( بیماری یا کمزوری وغیرہ کا ) اندیشہ ہو تو افطار کر سکتی ہیں اور اس کے بدلے کھانا کھلا دیا کریں ۔
تشریح : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت، جس طرح یہاں ابوداود میں آئی ہے، شاذ ہے، اسی لیے ہمارے فاضل محقق الشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن حضرت ابن عباس وغیرہ کی دیگر صحیح روایات سے یہ مسئلہ ثابت ہے جو اس میں بیان ہوا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آیت مذکورہ بالا عام لوگوں کے حق میں منسوخ ہے اور ان پر روزہ رکھنا فرض ہے۔ مگر بعض بوڑھے جو روزہ رکھنے کو تو رکھ لیں مگر اس کے اثرات مابعد کے متحمل نہ ہو سکتے ہوں اور انہیں ازحد مشقت ہوتی ہو تو ان کے لیے فدیہ دے کر روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔ اور ایسے ہی حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کا مسئلہ ہے کہ اگر ان کے روزہ رکھنے سے رحم میں زیر پرورش یا دودھ پیتے بچے کی بابت اندیشہ ہو، تو ان کے لیے بھی فدیے کی رخصت ہے۔ گویا زیادہ بوڑھے مردو عورت کو ان کی اپنی ذاتی کمزوری کی بنا پر رخصت دی گئی ہے اور حاملہ و مُر ضِعَہ کو رخصت بچوں کے اندیشے کے پیش نظر دی گئی ہے۔ تاہم حاملہ اور مُرضِعَہ بعد میں قضا دیں یا نہ دیں؟ اس کی بابت اختلاف ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ ان کے لیے فدیہ ہی کافی ہے، بعد میں قضا نہیں۔ دوسرا موقف حافظ ابن حزم کا ہے جو انہوں نے المحلیٰ (مسئلہ نمبر 770) میں بیان کیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ان پر قضا ہے نہ فدیہ۔ تیسری رائے یہ ہے کہ فدیہ طعام کے علاوہ بعد میں وہ قضا بھی دیں۔ چوتھی رائے ہے کہ وہ مریض کے حکم میں ہیں، وہ روزہ چھوڑ دیں، انہیں فدیہ دینے کی ضرورت نہیں، اور بعد میں قضا دیں۔ فضیلة الشیخ مولانا محمد علی جانباز حفظہ اللہ نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ (انجاز الحاجة شرح سنن ابن ماجه:5/566) اور سعودی علماء کی بھی یہی رائے ہے۔ (فتاویٰ اسلامیہ اُردو: 2/203-205) حضرت ابن عباس کی اس موقوف روایت کی اسنادی بحث کے لیے دیکھئے۔ (ارواء الغلیل، حدیث:912) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت، جس طرح یہاں ابوداود میں آئی ہے، شاذ ہے، اسی لیے ہمارے فاضل محقق الشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن حضرت ابن عباس وغیرہ کی دیگر صحیح روایات سے یہ مسئلہ ثابت ہے جو اس میں بیان ہوا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آیت مذکورہ بالا عام لوگوں کے حق میں منسوخ ہے اور ان پر روزہ رکھنا فرض ہے۔ مگر بعض بوڑھے جو روزہ رکھنے کو تو رکھ لیں مگر اس کے اثرات مابعد کے متحمل نہ ہو سکتے ہوں اور انہیں ازحد مشقت ہوتی ہو تو ان کے لیے فدیہ دے کر روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔ اور ایسے ہی حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کا مسئلہ ہے کہ اگر ان کے روزہ رکھنے سے رحم میں زیر پرورش یا دودھ پیتے بچے کی بابت اندیشہ ہو، تو ان کے لیے بھی فدیے کی رخصت ہے۔ گویا زیادہ بوڑھے مردو عورت کو ان کی اپنی ذاتی کمزوری کی بنا پر رخصت دی گئی ہے اور حاملہ و مُر ضِعَہ کو رخصت بچوں کے اندیشے کے پیش نظر دی گئی ہے۔ تاہم حاملہ اور مُرضِعَہ بعد میں قضا دیں یا نہ دیں؟ اس کی بابت اختلاف ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ ان کے لیے فدیہ ہی کافی ہے، بعد میں قضا نہیں۔ دوسرا موقف حافظ ابن حزم کا ہے جو انہوں نے المحلیٰ (مسئلہ نمبر 770) میں بیان کیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ان پر قضا ہے نہ فدیہ۔ تیسری رائے یہ ہے کہ فدیہ طعام کے علاوہ بعد میں وہ قضا بھی دیں۔ چوتھی رائے ہے کہ وہ مریض کے حکم میں ہیں، وہ روزہ چھوڑ دیں، انہیں فدیہ دینے کی ضرورت نہیں، اور بعد میں قضا دیں۔ فضیلة الشیخ مولانا محمد علی جانباز حفظہ اللہ نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ (انجاز الحاجة شرح سنن ابن ماجه:5/566) اور سعودی علماء کی بھی یہی رائے ہے۔ (فتاویٰ اسلامیہ اُردو: 2/203-205) حضرت ابن عباس کی اس موقوف روایت کی اسنادی بحث کے لیے دیکھئے۔ (ارواء الغلیل، حدیث:912)