Book - حدیث 2301

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابُ مَنْ رَأَى التَّحَوُّلَ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَسْعُودٍ، حَدَّثَنَا شِبْلٌ عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، قَالَ: قَالَ عَطَاءٌ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، نَسَخَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عِدَّتَهَا عِنْدَ أَهْلِهَا، فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ، وَهُوَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: {غَيْرَ إِخْرَاجٍ}[البقرة: 240]. قَالَ عَطَاءٌ: إِنْ شَاءَتِ اعْتَدَّتْ عِنْدَ أَهْلِهِ وَسَكَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا، وَإِنْ شَاءَتْ خَرَجَتْ, لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ}[البقرة: 240]، قَالَ عَطَاءٌ: ثُمَّ جَاءَ الْمِيرَاثُ فَنَسَخَ السُّكْنَى، تَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ .

ترجمہ Book - حدیث 2301

کتاب: طلاق کے احکام و مسائل باب: ان حضرات کی دلیل جو عورت کے منتقل ہونے کو جائز سمجھتے ہیں جناب عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس ؓ نے فرمایا ” آیت کریمہ «غير إخراج» نے عورت کے لیے شوہر کے اہل میں عدت گزارنے کو منسوخ کر دیا ہے ۔ سو جہاں چاہے عدت گزارے ۔ “ عطاء نے ( اس قول کی وضاحت میں ) کہا : چاہے تو شوہر کے اہل میں عدت گزارے جیسے کہ اس کے لیے وصیت ہے اور چاہے تو وہاں سے رخصت ہو جائے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «فإن خرجن فلا جناح عليكم في فعلن» عطاء کہتے ہیں کہ پھر آیت میراث نازل ہوئی ، پس وہ سکنی منسوخ ہو گیا تو جہاں چاہے عدت گزارے ۔
تشریح : خاوند کی وفات پر عورت کے لئے عدت کا مسئلہ سورۃ بقرہ کی دوآیات میں ذکر ہواہے ،پہلی آیت ٢٣٤ میں ہے (والذین یتوفون منکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اربعۃ اشھر وعشر) اور جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور چھوڑ جائیں اپنی بیویاں ،تو چاہے کہ وہ عورتیں اپنے آپ کو چار ماہ دس دن تک روکے رکھیں۔ اور اس کے بعد آیت 240 میں ہے (والذین یتوفون منکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انفسھن من معروف) اور جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اپنی بیویاں ،تو ان پر ہے کہ اپنی بیویوں کے لئے وصیت گر جائیں کہ انہیں ایک سال تک خرچ دینا ہے اور گھر سے نکالنابھی نہیں اگر وہ ازخود نکل جائیں اور اپنے حق میں جو بھلی بات کریں تو اس کا تم پر گناہ نہیں ہے ان دونوں آیاتکی تفسیر میں اصحاب ابن عباس رضی اللہ کا اختلاف ہے ۔ جمہور کہتے ہیں کہ ایک سال تک تفقہ وسکنی کا حکم پہلے کا ہے ۔ پھر اسے منسوخ کرکے چار ماہ دس دن کر دیا گیا ۔ لیکن مجاہد اور عطاء حضرت ابن عباس سے بیان کرتے ہیں کہ چار ماہ دس دن عدت کا حکم شروع ہی سے تھا۔ اسے منسوخ کرکے ایک سال تک بڑھا دیا گیا ۔ اب عورت پر لازم نہیں ہے کہ شوہر کے اہل میں عدتگ گزارے جیسے کہ (فان خرجن ) سے معلوم ہو رہا ہے ایسے ہی شوہر کے وارثوں پر جو پابندی تھی کہ ایک سال تک خرچ دیں اورسکنی بھی ،تو وراثت کے احکام نازل ہونے پر یہ بھی منسوخ ہے ۔ امام ابو داودؒ نے یہ باب ذکر کرکے ان حضرات کا موقف بیان کیا ہے مگر یہ موقف گزشتہ حدیث فریعہ بنت مالک کی روشنی میں راجح نہیں ہے الا یہ کہ یہ سمجھاجائے کہ چار ماہ دس دن کی عدت اور ان دنوں میں شوہر کے اہل میں رہنا واجب ہے ۔ بعدازاں سات ماہ بیس دن میں عورت کو منتقل ہوجانے کی رخصت ہے ، درج ذیل حدیث اسی تفصیل کی روشنی میں پڑھی جائے ۔ خاوند کی وفات پر عورت کے لئے عدت کا مسئلہ سورۃ بقرہ کی دوآیات میں ذکر ہواہے ،پہلی آیت ٢٣٤ میں ہے (والذین یتوفون منکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اربعۃ اشھر وعشر) اور جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور چھوڑ جائیں اپنی بیویاں ،تو چاہے کہ وہ عورتیں اپنے آپ کو چار ماہ دس دن تک روکے رکھیں۔ اور اس کے بعد آیت 240 میں ہے (والذین یتوفون منکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انفسھن من معروف) اور جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اپنی بیویاں ،تو ان پر ہے کہ اپنی بیویوں کے لئے وصیت گر جائیں کہ انہیں ایک سال تک خرچ دینا ہے اور گھر سے نکالنابھی نہیں اگر وہ ازخود نکل جائیں اور اپنے حق میں جو بھلی بات کریں تو اس کا تم پر گناہ نہیں ہے ان دونوں آیاتکی تفسیر میں اصحاب ابن عباس رضی اللہ کا اختلاف ہے ۔ جمہور کہتے ہیں کہ ایک سال تک تفقہ وسکنی کا حکم پہلے کا ہے ۔ پھر اسے منسوخ کرکے چار ماہ دس دن کر دیا گیا ۔ لیکن مجاہد اور عطاء حضرت ابن عباس سے بیان کرتے ہیں کہ چار ماہ دس دن عدت کا حکم شروع ہی سے تھا۔ اسے منسوخ کرکے ایک سال تک بڑھا دیا گیا ۔ اب عورت پر لازم نہیں ہے کہ شوہر کے اہل میں عدتگ گزارے جیسے کہ (فان خرجن ) سے معلوم ہو رہا ہے ایسے ہی شوہر کے وارثوں پر جو پابندی تھی کہ ایک سال تک خرچ دیں اورسکنی بھی ،تو وراثت کے احکام نازل ہونے پر یہ بھی منسوخ ہے ۔ امام ابو داودؒ نے یہ باب ذکر کرکے ان حضرات کا موقف بیان کیا ہے مگر یہ موقف گزشتہ حدیث فریعہ بنت مالک کی روشنی میں راجح نہیں ہے الا یہ کہ یہ سمجھاجائے کہ چار ماہ دس دن کی عدت اور ان دنوں میں شوہر کے اہل میں رہنا واجب ہے ۔ بعدازاں سات ماہ بیس دن میں عورت کو منتقل ہوجانے کی رخصت ہے ، درج ذیل حدیث اسی تفصیل کی روشنی میں پڑھی جائے ۔