Book - حدیث 2278

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابُ مَنْ أَحَقُّ بِالْوَلَدِ صحیح حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ إِلَى مَكَّةَ، فَقَدِمَ بِابْنَةِ حَمْزَةَ، فَقَالَ جَعْفَرٌ: أَنَا آخُذُهَا، أَنَا أَحَقُّ بِهَا, ابْنَةُ عَمِّي، وَعِنْدِي خَالَتُهَا، وَإِنَّمَا الْخَالَةُ أُمٌّ، فَقَالَ عَلِيٌّ: أَنَا أَحَقُّ بِهَا, ابْنَةُ عَمِّي وَعِنْدِي ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهِيَ أَحَقُّ بِهَا، فَقَالَ زَيْدٌ: أَنَا أَحَقُّ بِهَا, أَنَا خَرَجْتُ إِلَيْهَا وَسَافَرْتُ وَقَدِمْتُ بِهَا، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... فَذَكَرَ حَدِيثًا، قَال:َ >وَأَمَّا الْجَارِيَةُ, فَأَقْضِي بِهَا لِجَعْفَرٍ، تَكُونُ مَعَ خَالَتِهَا، وَإِنَّمَا الْخَالَةُ أُم ٌّ.

ترجمہ Book - حدیث 2278

کتاب: طلاق کے احکام و مسائل باب: ( ماں باپ میں علیحدگی ہو جائے تو ) بچے ( کی نگہداشت اور تربیت ) کا کون زیادہ حقدار ہے؟ سیدنا علی ؓ نے بیان کیا کہ سیدنا زید بن حارثہ مکہ آئے اور حمزہ کی بیٹی کو ساتھ لے آئے ۔ تو جعفر نے کہا : میں اسے ( اپنی تولیت میں ) لیتا ہوں ، میں اس کا زیادہ حقدار ہوں ۔ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میری زوجیت میں ہے ، اور خالہ بمنزلہ ماں کے ہوتی ہے ۔ اور علی ؓ نے کہا : میں اس کا زیادہ حقدار ہوں ۔ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور میرے گھر میں رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی ہے اور وہ اس کی زیادہ حقدار ہے ۔ اور زید نے کہا : میں اس کا زیادہ حقدار ہوں ۔ میں ہی اس کے پاس گیا ، سفر کیا اور اس کو لے کر آیا ہوں ۔ پھر نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور بات کی اور فرمایا ” لڑکی کا فیصلہ میں جعفر کے حق میں کرتا ہوں کہ اپنی خالہ کے پاس رہے گی اور خالہ بمنزلہ ماں کے ہوتی ہے ۔ “
تشریح : بچے کی نگہداشت اور تربیت میں اولویت واولیت ماں کو حاصل ہے جیسے کہ اوپر کی حدیث میں گزرا ہے اس کے بعد خالہ ہے پھر باپ کی جانب کے رشتہ دار ہیں(عصبات)۔امام ابن تیمیہ اور ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ اس تقدیم وترتیب میں بچے کے ھال اور مستقبل کی مصلھت کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔اگر اس میں کسی واضح فتنے کا اندیشہ ہوتو ترتیب کو بدلنا لازمی ہوگا کیونکہ مثلاً بچے کو اختیار دینے کی صورت میں عین ممکن ہےکہ ناقص العقل ہونے کی وجہ صحیح فیصلہ نہ کرسکے۔اور حق حق میراث کی مانند نہیں کہ اس میں محض قرابت داری ہی بنیاد ہو بلکہ یہ حق ولایت ہے جیسے کہ نکاح اور مالی معاملات میں ہوتا ہے اور ان میں مصالح کو ترجیح دی جاتی ہےنہ کہ محض قرابت داری کو۔اسی طرح بچے کی نگہداشت وتربیت میں ایک جانب واضح ظلم ہو اس کے عقیدے تعلیم و تربیت اور اخلاق وعمل کی حفاظت کا اہتمام نہ ہو اور دوسری جانب ان امور کا اہتمام ہو تو دوسری جانب کو ترجیح ہوگی۔(تیسیر العلام شرح عمدہ الاحکام جلد دوم حدیث:332۔نیل الاوطار جلد ششم باب من احق بکفالۃ الطفل) بچے کی نگہداشت اور تربیت میں اولویت واولیت ماں کو حاصل ہے جیسے کہ اوپر کی حدیث میں گزرا ہے اس کے بعد خالہ ہے پھر باپ کی جانب کے رشتہ دار ہیں(عصبات)۔امام ابن تیمیہ اور ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ اس تقدیم وترتیب میں بچے کے ھال اور مستقبل کی مصلھت کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔اگر اس میں کسی واضح فتنے کا اندیشہ ہوتو ترتیب کو بدلنا لازمی ہوگا کیونکہ مثلاً بچے کو اختیار دینے کی صورت میں عین ممکن ہےکہ ناقص العقل ہونے کی وجہ صحیح فیصلہ نہ کرسکے۔اور حق حق میراث کی مانند نہیں کہ اس میں محض قرابت داری ہی بنیاد ہو بلکہ یہ حق ولایت ہے جیسے کہ نکاح اور مالی معاملات میں ہوتا ہے اور ان میں مصالح کو ترجیح دی جاتی ہےنہ کہ محض قرابت داری کو۔اسی طرح بچے کی نگہداشت وتربیت میں ایک جانب واضح ظلم ہو اس کے عقیدے تعلیم و تربیت اور اخلاق وعمل کی حفاظت کا اہتمام نہ ہو اور دوسری جانب ان امور کا اہتمام ہو تو دوسری جانب کو ترجیح ہوگی۔(تیسیر العلام شرح عمدہ الاحکام جلد دوم حدیث:332۔نیل الاوطار جلد ششم باب من احق بکفالۃ الطفل)