Book - حدیث 2273

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابٌ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ صحيح ق دون الزيادة وعلقها خ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَمُسَدَّدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، اخْتَصَمَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَعَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ابْنِ أَمَةِ زَمْعَةَ، فَقَالَ سَعْدٌ: أَوْصَانِي أَخِي عُتْبَةُ، إِذَا قَدِمْتُ مَكَّةَ أَنْ أَنْظُرَ إِلَى ابْنِ أَمَةِ زَمْعَةَ، فَأَقْبِضَهُ فَإِنَّهُ ابْنُهُ، وَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي ابْنُ أَمَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِي، فَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَبَهًا بَيِّنًا بِعُتْبَةَ فَقَالَ: الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ، وَاحْتَجِبِي عَنْهُ يَا سَوْدَةُ<. زَادَ مُسَدَّدٌ فِي حَدِيثِهِ وَقَالَ >هُوَ أَخُوكَ يَا عَبْدُ.

ترجمہ Book - حدیث 2273

کتاب: طلاق کے احکام و مسائل باب: بچہ بستر والے کا ہے ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا سے مروی ہے کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ ( یہ ام المؤمنین سودہ ؓا کے بھائی ہیں ) اپنا ایک تنازعہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر آئے جو کہ زمعہ کی لونڈی کے بیٹے ( کی تولیت ) سے متعلق تھا ۔ سعد نے کہا : میرے بھائی عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی کہ میں ( سعد ) جب مکے جاؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو دیکھوں اور اسے اپنی تولیت میں لے لوں ، بلاشبہ وہ میرا ہی بیٹا ہے ۔ جبکہ عبد بن زمعہ نے کہا : وہ میرا بھائی ہے ، میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے ، میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ بچے اور عتبہ کے مابین واضح مشابہت ہے مگر آپ نے فرمایا ” بچہ بستر والے کا ہے ، اور زانی کے لیے پتھر ہیں اور اے سودہ ! ( ام المؤمنین ؓ ) اس سے پردہ کر ۔ “ مسدد نے اپنی روایت میں کہا : ” اے عبد ! یہ تیرا ہی بھائی ہے ۔ “
تشریح : 1۔چونکہ یہ معاملات جاہلیت کے تھے اور وہ لوگ اس انداز کے اعمال میں ملوث تھےتو ان بچوں سے بھی کوئی عار نہ سمجھتے تھے مگر اسلام نے یہ قائدہ قانون دیا ہے۔کہ بچہ بستر والے کا ہوتا ہے ۔مذکورہ واقعہ میں بچے کی شکل سے نمایاں تھاکہ یہ ولد الزنا ہےاور عتبہ کا لڑکا ہے مگر قاعدہ اور اصول کو ترجیح دی گئی اور اسے صاحب فراش کے ساتھ ملحق کردیا گیا۔قانونئ اعتبار سے یہ اگرچہ حضرت سودہ کا بھائی بنا مگر دعوی اور شکل وصورت زانی کے ساتھ ملتی تھی اس لیے اس کا نسب مشتبہ ٹھرا۔تو نبی ﷺ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کو پردے کا حکم دیا کیونکہ اس کا بھائی ہونا مشکوک تھا۔اگرچہ قاعدے کی رو سے ان کے خاندان کا فرد بنادیا گیا تھا۔ 2۔ (وللعاهر الحجر) کا ایک ترجمہ زانی کے لیے محرومی ہے اس صورت میں جیم پر زبر کے بجائے سکون یعنی جزم آئے گی۔مطلب دونوں صورتوں میں یہی ہوگاکہ اولاد کا مستحق زانی نہیں ہوگا بلکہ اس کے حصے میں سزا آئے گی۔حد رجم یا سو کوڑے اور بچے سےوہ محروم ہی رہے گا۔ 1۔چونکہ یہ معاملات جاہلیت کے تھے اور وہ لوگ اس انداز کے اعمال میں ملوث تھےتو ان بچوں سے بھی کوئی عار نہ سمجھتے تھے مگر اسلام نے یہ قائدہ قانون دیا ہے۔کہ بچہ بستر والے کا ہوتا ہے ۔مذکورہ واقعہ میں بچے کی شکل سے نمایاں تھاکہ یہ ولد الزنا ہےاور عتبہ کا لڑکا ہے مگر قاعدہ اور اصول کو ترجیح دی گئی اور اسے صاحب فراش کے ساتھ ملحق کردیا گیا۔قانونئ اعتبار سے یہ اگرچہ حضرت سودہ کا بھائی بنا مگر دعوی اور شکل وصورت زانی کے ساتھ ملتی تھی اس لیے اس کا نسب مشتبہ ٹھرا۔تو نبی ﷺ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کو پردے کا حکم دیا کیونکہ اس کا بھائی ہونا مشکوک تھا۔اگرچہ قاعدے کی رو سے ان کے خاندان کا فرد بنادیا گیا تھا۔ 2۔ (وللعاهر الحجر) کا ایک ترجمہ زانی کے لیے محرومی ہے اس صورت میں جیم پر زبر کے بجائے سکون یعنی جزم آئے گی۔مطلب دونوں صورتوں میں یہی ہوگاکہ اولاد کا مستحق زانی نہیں ہوگا بلکہ اس کے حصے میں سزا آئے گی۔حد رجم یا سو کوڑے اور بچے سےوہ محروم ہی رہے گا۔