Book - حدیث 2268

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابٌ فِي الْقَافَةِ صحیح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ: قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ مَسْرُورًا، تَبْرُقُ أَسَارِيرُ وَجْهِهِ. قَالَ أَبو دَاود: وَأَسَارِيرُ وَجْهِهِ لَمْ يَحْفَظْهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ. قَالَ أَبو دَاود: أَسَارِيرُ وَجْهِهِ هُوَ تَدْلِيسٌ مِنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ لَمْ يَسْمَعْهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ إِنَّمَا سَمِعَ الْأَسَارِيرَ مِنْ غَيْرِهِ قَالَ وَالْأَسَارِيرُ فِي حَدِيثِ اللَّيْثِ وَغَيْرِهِ. قَالَ أَبو دَاود: وَسَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ صَالِحٍ، يَقُولُ: كَانَ أُسَامَةُ أَسْوَدَ شَدِيدَ السَّوَادِ مِثْلَ الْقَارِ، وَكَانَ زَيْدٌ أَبْيَضَ مِثْلَ الْقُطْنِ.

ترجمہ Book - حدیث 2268

کتاب: طلاق کے احکام و مسائل باب: عمل قیانہ کا بیان ابن شہاب نے اپنی سند سے مذکورہ بالا کے ہم معنی بیان کیا سیدہ عائشہ ؓا نے کہا : آپ ﷺ بڑے خوش خوش میرے پاس تشریف لائے ۔ آپ ﷺ کے چہرے کی دھاریاں چمک رہی تھیں ۔ ¤ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ اسامہ سیاہ اور زید ؓ سفید رنگ کے تھے ۔ ¤ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں «أسارير وجهه» کا لفظ ابن عیینہ نے یاد نہیں رکھا ۔ ¤ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں «أسارير وجهه» کے الفاظ ابن عیینہ کی تدلیس ہے ، جو کہ انہوں نے زہری سے نہیں سنے بلکہ کسی اور سے سنے ہیں ۔ یہ الفاظ لیث وغیرہ کی روایت میں آئے ہیں ۔ ¤ امام ابوداؤد ؓ نے کہا : احمد بن صالح کہا کرتے تھے کہ سیدنا اسامہ ؓ انتہائی کالے رنگ کے تھے جیسے کہ تارکول ہو اور زید ؓ سفید رنگ کے تھے جیسے کہ روئی ۔
تشریح : حضرت زیدبن حارثہ رجی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے مولی (آزاد کردہ غلام )تھےاور شرع ایام اسلام میں آپ کے متنبہی (لےپالک)بھی کہلاتے رہتے تھے۔ان صاحبزادے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺکو انتہائی محبوب تھے۔ان کا لقب ہی حب رسول الله (رسول اللہ ﷺ کے لاڈلے اور چہیتے) پڑگیا تھا۔باپ بیٹے میں رنگ کا فرق تھا کیونکہ اسامہ ماں ام ایمن تھی جو حبشن تھیں۔انہیں رنگ پر ان کا رنگ آیا تو کئی جاہل ان کے نسب پر طعن کرتے تھے جوکہ رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے لیے اذیت کا باعث تھا۔مجزز مدلحجی قبیلہ بنو اسد کا معروف قیافہ شناس تھااور مشرکین اس کی بات قبول کرتے تھے ۔کہیں گزرتے ہوئے اس نے ان دونوں باپ بیٹے کو دیکھ لیا جبکہ ان کے چہرے ڈھنپے ہوئے تھےاور پاؤں ننگے تھے۔تو اس نے غالباً اپنے علمی رعب کا اظہار کرنےکے لیے یہ جملہ کہ دیا کہ یہ پاؤں باپ بیٹے کے ہیں۔ یہ جملہ مسلمانوں کے لیے حق کی تائید وتقویت اور شبہات کے ازالے کا باعث ثابت ہوا۔اس سے رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو خوشی ہوئی کہ کفار کا معتقدان کے اپنے طعن کی تردید کر رہا ہے۔۔۔۔اس واقعہ میں فقہی استدلال یہ ہے کہ اگر کہیں کسی بچے کے بارے میں کئی لوگ مدعی ہوں یا کسی عورت سے کسی شبہے کی وجہ سے دو تین افراد نے مباشرت کرلی ہو اور بچے کے بارے میں واضح نہ ہوکہ کس کا ہے؟تو کسی ماہر اور عادل قیافہ شناس کے رائے سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔اگر یہ علم سراسر باطل ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس کے قول پر خوشی کا اظہار نہ فرماتے۔گزشتہ حدیث لعان(حدیث:2252)میں رسول اللہﷺ کا بیان گزرا ہےکہ بچہ اگر اس اس طرح کا ہوا تو فلاں کا ہوگا۔ اس میں علم قیافہ کی اصلیت کی دلیل ہے ۔نیز حدیث ام سلیم رضی اللہ عنہ میں آتا ہے کہاگر عورت کو احتلام نہیں ہوتا تو بچے کی اس کے ساتھ مشابہت کیونکر ہوتی ہے؟(صحیح بخاری العلم حدیث :130 و صحیح مسلم الحیض حدیث:313) حضرت زیدبن حارثہ رجی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے مولی (آزاد کردہ غلام )تھےاور شرع ایام اسلام میں آپ کے متنبہی (لےپالک)بھی کہلاتے رہتے تھے۔ان صاحبزادے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺکو انتہائی محبوب تھے۔ان کا لقب ہی حب رسول الله (رسول اللہ ﷺ کے لاڈلے اور چہیتے) پڑگیا تھا۔باپ بیٹے میں رنگ کا فرق تھا کیونکہ اسامہ ماں ام ایمن تھی جو حبشن تھیں۔انہیں رنگ پر ان کا رنگ آیا تو کئی جاہل ان کے نسب پر طعن کرتے تھے جوکہ رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے لیے اذیت کا باعث تھا۔مجزز مدلحجی قبیلہ بنو اسد کا معروف قیافہ شناس تھااور مشرکین اس کی بات قبول کرتے تھے ۔کہیں گزرتے ہوئے اس نے ان دونوں باپ بیٹے کو دیکھ لیا جبکہ ان کے چہرے ڈھنپے ہوئے تھےاور پاؤں ننگے تھے۔تو اس نے غالباً اپنے علمی رعب کا اظہار کرنےکے لیے یہ جملہ کہ دیا کہ یہ پاؤں باپ بیٹے کے ہیں۔ یہ جملہ مسلمانوں کے لیے حق کی تائید وتقویت اور شبہات کے ازالے کا باعث ثابت ہوا۔اس سے رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو خوشی ہوئی کہ کفار کا معتقدان کے اپنے طعن کی تردید کر رہا ہے۔۔۔۔اس واقعہ میں فقہی استدلال یہ ہے کہ اگر کہیں کسی بچے کے بارے میں کئی لوگ مدعی ہوں یا کسی عورت سے کسی شبہے کی وجہ سے دو تین افراد نے مباشرت کرلی ہو اور بچے کے بارے میں واضح نہ ہوکہ کس کا ہے؟تو کسی ماہر اور عادل قیافہ شناس کے رائے سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔اگر یہ علم سراسر باطل ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس کے قول پر خوشی کا اظہار نہ فرماتے۔گزشتہ حدیث لعان(حدیث:2252)میں رسول اللہﷺ کا بیان گزرا ہےکہ بچہ اگر اس اس طرح کا ہوا تو فلاں کا ہوگا۔ اس میں علم قیافہ کی اصلیت کی دلیل ہے ۔نیز حدیث ام سلیم رضی اللہ عنہ میں آتا ہے کہاگر عورت کو احتلام نہیں ہوتا تو بچے کی اس کے ساتھ مشابہت کیونکر ہوتی ہے؟(صحیح بخاری العلم حدیث :130 و صحیح مسلم الحیض حدیث:313)