Book - حدیث 2266

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابٌ فِي ادِّعَاءِ وَلَدِ الزِّنَا حسن حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَاشِدٍ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، زَادَ: وَهُوَ وَلَدُ زِنَا لِأَهْلِ أُمِّهِ مَنْ كَانُوا, حُرَّةً أَوْ أَمَةً وَذَلِكَ فِيمَا اسْتُلْحِقَ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ، فَمَا اقْتُسِمَ مِنْ مَالٍ قَبْلَ الْإِسْلَامِ فَقَدْ مَضَى.

ترجمہ Book - حدیث 2266

کتاب: طلاق کے احکام و مسائل باب: ولد الزنا بچے کی ملکیت کے احکام و مسائل محمد بن راشد نے اپنی سند سےاس مذکور حدیث کے ہم معنی بیان کیا اور مزید کہا : یہ ولد الزنا ہو گا اور اپنی ماں کے اہل کی ملکیت ہو گا خواہ کوئی ہوں ، آزاد عورت ہو یا کوئی لونڈی ۔ اور یہ فیصلے اسلام کے اولین دور میں ہوئے تھے ۔ اور جو مال قبل از اسلام تقسیم ہو چکے وہ ہو چکے ۔
تشریح : دور جاہلیت میں لوگوں کے پاس لونڈیاں ہوتی تھی جو بعض اوقات بدکاری کے عمل سے مال بھی کماتی تھیں اور کئی مالک ان سے مباشرت کرنے سے پہلے پرہیز نہیں کرتے تھے۔تو اگر کسی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو کبھی وہ زانی اس کی ملکیت کا دعوی کرتا اور ساتھ مالک بھی اس کا دعوی کرلیتا تھا۔اسلام میں ان کا فیصلہ یہ ہوا کہ بچہ لونڈی کے مالک کا ہے نہ کہ زانی کا۔کیونکہ لونڈی مالک کا بستر ہوتی ہے جیسے کہ آزاد عورت۔اور اگر یہ صورت ہوئی ہوتی کہ بچے کو زانی کی طرف منسوب کیا گیا مالک نے جین حیات نہ دعوی کیااور نہ انکار اور پھر وہ مرگیا۔مگر اس کی موت کے بعد وارثوں نے بچے کے متعلق دعوی کیا کہ یہ مرنے والے مالک کا ہے توان کا یہ دعوی تسلیم کیا جائے گا۔اور قبل ازوقت تقسیم شدہ مال وراثت میں اس کا کوئی حق نہ ہوگا۔مگر باقی ماندہ مال میں اس کاحصہ ہوگا جو بنتا ہو۔لیکن اگر لونڈی کے مالک نے حمل کا انکار کیا ہو اور اس بچے کا مدعی نہ رہا ہو تو بچے کو اس کے ساتھ ملحق نہ کیا جائےگااور نہ وارثوں کو حق ہوگاکہ مالک کی موت کے بعد اس بچے کو اس کی اولاد کے ساتھ لاحق کرنے کا دعوی کریں۔(معالم السنن للخطابی) اس قسم کا ایک واقعہ آگے حدیث (2273) میں آرہاہے۔ دور جاہلیت میں لوگوں کے پاس لونڈیاں ہوتی تھی جو بعض اوقات بدکاری کے عمل سے مال بھی کماتی تھیں اور کئی مالک ان سے مباشرت کرنے سے پہلے پرہیز نہیں کرتے تھے۔تو اگر کسی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو کبھی وہ زانی اس کی ملکیت کا دعوی کرتا اور ساتھ مالک بھی اس کا دعوی کرلیتا تھا۔اسلام میں ان کا فیصلہ یہ ہوا کہ بچہ لونڈی کے مالک کا ہے نہ کہ زانی کا۔کیونکہ لونڈی مالک کا بستر ہوتی ہے جیسے کہ آزاد عورت۔اور اگر یہ صورت ہوئی ہوتی کہ بچے کو زانی کی طرف منسوب کیا گیا مالک نے جین حیات نہ دعوی کیااور نہ انکار اور پھر وہ مرگیا۔مگر اس کی موت کے بعد وارثوں نے بچے کے متعلق دعوی کیا کہ یہ مرنے والے مالک کا ہے توان کا یہ دعوی تسلیم کیا جائے گا۔اور قبل ازوقت تقسیم شدہ مال وراثت میں اس کا کوئی حق نہ ہوگا۔مگر باقی ماندہ مال میں اس کاحصہ ہوگا جو بنتا ہو۔لیکن اگر لونڈی کے مالک نے حمل کا انکار کیا ہو اور اس بچے کا مدعی نہ رہا ہو تو بچے کو اس کے ساتھ ملحق نہ کیا جائےگااور نہ وارثوں کو حق ہوگاکہ مالک کی موت کے بعد اس بچے کو اس کی اولاد کے ساتھ لاحق کرنے کا دعوی کریں۔(معالم السنن للخطابی) اس قسم کا ایک واقعہ آگے حدیث (2273) میں آرہاہے۔