Book - حدیث 2254

كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابٌ فِي اللِّعَانِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرِيكِ ابْنِ سَحْمَاءَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >الْبَيِّنَةُ، أَوْ حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ< قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِذَا رَأَى أَحَدُنَا رَجُلًا عَلَى امْرَأَتِهِ, يَلْتَمِسُ الْبَيِّنَةَ؟ فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: >الْبَيِّنَةُ، وَإِلَّا فَحَدٌّ فِي ظَهْرِكَ<، فَقَالَ هِلَالٌ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ نَبِيًّا! إِنِّي لَصَادِقٌ، وَلَيُنْزِلَنَّ اللَّهُ فِي أَمْرِي مَا يُبْرِئُ بِهِ ظَهْرِي مِنَ الْحَدِّ، فَنَزَلَتْ: {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ - فَقَرَأَ حَتَّى بَلَغَ- مِنَ الصَّادِقِينَ}[النور: 6-9] فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمَا، فَجَاءَا، فَقَامَ هِلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ فَشَهِدَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: >اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا مِنْ تَائِبٍ؟< ثُمَّ قَامَتْ فَشَهِدَتْ، فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الْخَامِسَةِ {أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ}[النور: 9]، وَقَالُوا لَهَا: إِنَّهَا مُوجِبَةٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَتَلَكَّأَتْ وَنَكَصَتْ، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهَا سَتَرْجِعُ، فَقَالَتْ: لَا أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ، فَمَضَتْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >أَبْصِرُوهَا، فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ الْعَيْنَيْنِ، سَابِغَ الْأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ, فَهُوَ لِشَرِيكِ ابْنِ سَحْمَاءَ<، فَجَاءَتْ بِهِ كَذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >لَوْلَا مَا مَضَى مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، لَكَانَ لِي وَلَهَا شَأْنٌ<. قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا مِمَّا تَفَرَّدَ بِهِ أَهْلُ الْمَدِينَةِ حَدِيثُ ابْنِ بَشَّارٍ حَدِيثُ هِلَالٍ.

ترجمہ Book - حدیث 2254

کتاب: طلاق کے احکام و مسائل باب: لعان کے احکام و مسائل سیدنا ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ہلال بن امیہ ؓ نے اپنی بیوی کو شریک بن سحماء کے ساتھ متہم کیا ۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” گواہ لاؤ ، ورنہ تمہاری کمر پر حد ہے ۔ “ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! جب ہم میں سے کوئی شخص کسی کو اپنی بیوی پر دیکھے تو بھلا وہ گواہ ڈھونڈنے جائے گا ؟ مگر نبی کریم ﷺ فرماتے رہے ” گواہ لاؤ ، ورنہ تمہاری کمر پر حد ہے ۔ “ تو ہلال کہنے لگا : قسم اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ نبی مبعوث فرمایا ہے ! میں یقیناً سچا ہوں اور اللہ عزوجل بالضرور میرے بارے میں کچھ نازل فرمائے گا جو میری کمر کو حد سے بری کر دے گا ۔ چنانچہ یہ آیات نازل ہوئیں «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» حتیٰ کہ «من الصادقين» تک پہنچے ۔ پھر نبی کریم ﷺ چلے گئے اور ان دونوں کو بلا بھیجا اور وہ دونوں آ گئے ۔ ہلال بن امیہ کھڑے ہوئے اور گواہی دی اور نبی کریم ﷺ فر رہے تھے ” اللہ جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے ، تو کیا تم میں سے کوئی توبہ کرتا ہے ؟ “ پھر وہ عورت کھڑی ہوئی اور گواہی دی اور جب پانچویں بار کہنے لگی ” مجھ پر اللہ کا غضب ہو اگر یہ سچا ہے ۔ “ تو لوگوں نے اس سے کہا : یہ قسم ( اللہ کی لعنت اور غضب کو ) واجب اور لازم کر دینے والی ہے ۔ ابن عباس ؓ نے کہا : عورت قدرے ٹھٹکی ( بولنے میں جھجکی ) اور پیچھے ہٹی ، ہم سمجھے کہ شاید رجوع کر لے گی مگر اس نے کہا : میں اپنی قوم کو ہمیشہ کے لیے رسوا نہیں کر سکتی ۔ اور پانچویں قسم کے الفاظ کہہ ڈالے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” اسے دیکھنا ، اگر اس نے بچہ جنا سرمگین آنکھوں والا ، بھری بھری سرینوں اور موٹی موٹی پنڈلیوں والا ، تو یہ شریک بن سحماء کا ہو گا ( جس کے ساتھ اس کو متہم کیا گیا ہے ) “ چنانچہ اس نے اسی طرح کا بچہ جنا ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” اگر کتاب اللہ کا فیصلہ نہ ہوتا تو میں اسے نشان عبرت بنا ڈالتا ( اس پر حد جاری کرتا ) ۔ “ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ محمد بن بشار کی یہ روایت یعنی حدیث ہلال بیان کرنے میں اہل مدینہ متفرد ہیں ۔
تشریح : انسان کتنا ظاہر بین ہے کہ آخرت کے معاملے کو بعید اور پوشیدہ سمجھتا ہے لیکن نور ایمان ہی سے یہ فاصلے پاٹے جاتے ہیں ۔ انسان کتنا ظاہر بین ہے کہ آخرت کے معاملے کو بعید اور پوشیدہ سمجھتا ہے لیکن نور ایمان ہی سے یہ فاصلے پاٹے جاتے ہیں ۔